کتاب: البیان شمارہ 22 - صفحہ 32
سکوت اور کلام
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر خاموش رہا کرتے تھے۔بلا ضرورت کبھی گفتگو نہ فرمایا کرتے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہایت شیریں کلام اورکمال فصیح تھے۔کلام میں آوُد(تلخی) ذرا نہ تھی۔گفتگو ایسی دلآویز ہوتی تھی کہ سننے والے کے دل وروح پر قبضہ کر لیتی تھی۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ وصف ایسا مسلمہ تھا کہ مخالف بھی اس کی شہادت دیتے تھےاور جاہل دشمن اسی کا نام سحروجادو رکھا کرتے۔سلسلہ سخن ایسا مرتب ہوتاتھا جس میں لفظاً ومعناً کوئی خلل نہ ہوتا ۔الفاظ ایسی ترتیب سے ادا فرمایاکرتے کہ اگر سننے والا چاہے تو الفاظ کا شمار کرسکتا تھا۔[1]
ہنسنا رونا
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کھل کر ہنسنا پسند نہ کرتے تھے تبسم ہی آپ کا ہنسنا تھا۔
نماز تہجد میں بسااوقات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رو پڑا کرتے۔
کبھی کسی مخلص کےمرنے پر آبدیدہ ہوجاتے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند ابراہیم علیہ السلام دودھ پیتے ہیں گزر گئے۔جب انہیں قبر میں رکھا گیا۔توحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔فرمایا:
’تَدْمَعُ اَلْعَيْنُ وَ يَحْزَنُ اَلْقَلْبُ وَ لاَ نَقُولُ إِلاَّ مَا يَرْضَى ربُّنا وَ إِنَّا بِكَ يَا إِبْرَاہيمُ لَمَحْزُونُونَ‘
’’آنکھوں میں نم ہے،دل میں غم ہے،پھر بھی ہم وہی بات کہتے ہیں جو ہمارے پروردگار کو پسندیدہ ہے۔ابراہیم ! ہم کو تیری وجہ سے رنج ہوا۔‘‘
ایک دفعہ اپنی نواسی سانس توڑتی(دختر زینب) کو گود میں اٹھایا۔اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں میں پانی بھر آیا۔سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کیا؟فرمایا:یہ وہ رحم دلی ہے،جو خدا پنے بندوں کے دلوں میں بھردیتا ہے اور اللہ بھی اپنے انہیں بندوں پر رحم کرے گا جو رحم دل ہیں ۔[2]
ایک دفعہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن مجید سنا رہے تھے۔جب وہ اس آیت پر پہنچے۔
[1] زاد المعاد،جلد:1،ص:47
[2] بخاری عن اسامہ بن زیدرضی اللّٰہ عنہ،کتاب الایمان والنذور