کتاب: البیان شمارہ 22 - صفحہ 30
حجۃ الاسلام امام غزالی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مویشی کو چارہ خود ڈال دیتے،اونٹ کو باندھتے،گھر میں صفائی کرلیتے،بکری دوھ لیتے۔خادم کے ساتھ بیٹھ کر کھا لیتے۔خادم کو اس کے کام کاج میں مدد دیتے بازار سے چیز خود جاکر خریدلیتے،خود اسے اٹھا لیتے،ہر ادنیٰ واعلیٰ خوردوبزرگ کو سلام پہلے کیا کرتے۔جو کوئی ساتھ ہو لیتا اس کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر کر چلا کرتے۔غلام وآقا،حبشی وترکی میں ذرا تفاوت نہ کرتے، رات دن کا لباس ایک ہی رکھتے۔کیسا ہی کوئی حقیر شخص دعوت کےلیے کہتا،قبول فرمالیتے،جو کچھ کھانا سامنے رکھ دیا جاتا اسے برغبت کھاتے،رات کے کھانے میں سے صبح کے لیے صبح کے کھانے میں شام کے لیے اٹھانہ رکھتے۔نیک خو،کریم الطبع،کشادہ روتھے،مگر(کھل کھلا کر)ہنستےنہ تھے، اندوہگیں تھے،سختی تھے،مگر ترش رونہ تھے۔متواضع،جس میں دیانت نہ تھی۔ہیبت،جس میں درشتی نہ تھی،سختی تھے،مگر اسراف نہ تھا۔ہر ایک پر رحم فرمایا کرتے کسی سے کچھ طمع نہ رکھتے۔سر مبارک کو جھکائے رکھتے تھے۔‘‘[1] حکیم الامۃ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’جو کوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یکبار گی آجاتا،وہ ہیبت زدہ ہوجاتااور جو کوئی پاس آبیٹھتا وہ فدائی بن جاتا ۔[2] کنبہ والوں اور خادموں پر بہت زیادہ مہربان تھے۔انس رضی اللہ عنہ نے دس سال تک خدمت کی،اس عرصہ میں انہیں کبھی اف(ہونھ) تک نہ کہا۔زبان مبارک پر کبھی گوئی گندی بات یا گالی نہیں آتی تھی۔نہ کسی پرلعنت کیا کرتےتھے،دوسرے کی اذیت وآزار پر نہایت صبر کیا کرتے،خلقِ خدا پر نہایت رحمت فرماتے،ہاتھ یا زبان مبارک سے کبھی کسی شر نہ پہنچا۔کنبہ کی اصلاح اور قوم کی درستی پر نہایت توجہ فرماتے ہر شخص کی قدرومنزلت سےآگاہ تھے۔آسمانی بادشاہت کی جانب ہمیشہ نظر لگائے
[1] کیمیائے سعات،مصنفہ امام غزالی(المتوفی505ھ)ص:280،مطبوعہ نول کشور 1882 [2] یہ فقرہ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے کلام کا ترجمہ ہے۔فرماتے ہیں:’ من رآه بديھة هابه، ومن خالطه محبۃ عشقہ‘