کتاب: البیان شمارہ 22 - صفحہ 29
’’خلق محمدی صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ ایسا لفظ ہے کہ اب بہترین بزرگوں کے عادات و اخلاق۔اطوار وشمائل کے اظہار کے لیےمشبہ بہ(تمثیل)بن گیا ہے۔
میں اس جگہ کمالاتِ نبوت اور خصوصیات نبویہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کا ذکر نہیں کروں گا۔صرف وہ سادہ حالات لکھنے مقصود ہیں ۔جن کوئی سعادت مند ازلی اپنے لیے نمونہ بنا سکتا ہے۔﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللّٰہ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ﴾(الاحزاب:21)’’تمہارے لیےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہترین نمونہ موجود ہے۔‘‘
سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ’’اُمی‘‘ تھے،لکھنا پڑھنا نہ جانتے تھے اوربعثت ونبوت کے زمانے تک کسی عالم کی صحبت بھی میسر نہ ہوئی تھی۔
تیرافگنی،شہسواری،نیزی بازی،سجع گوئی،قصیدہ خوانی،نسب دانی اس زمانے کے ایسے فنون تھے، جنہیں شریف خاندان کا ہر ایک نوجوان حصولِ شہرت وعزت کے لیے ضرور سیکھ لیا کرتا تھااور جن کے بغیر کوئی شخص ملک اور قوم میں عزت یا کوئی امتیاز حاصل نہ کرسکتا تھا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان فنون میں سے کسی کو بھی(اکتساباً)حاصل نہ کیا تھا اور نہ کسی پر اپنی دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت فرنچ پروفیسر سیڈیو لکھتا ہے:
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خندہ رو،ملنسار،اکثر خاموش رہنے والے ،بکثرت ذکرنے والے،لغویات سے دور،بیہودہ پن سے نفور،بہترین رائے اور بہترین عقل والےتھے۔غربا میں رہ کر خوش ہوتے،کسی فقیر کو اس کی تنگدستی کی وجہ سے حقیر نہ سمجھا کرتے اور کسی بادشاہ کو بادشاہی کی وجہ سے بڑا نہ جانتے اپنے پاس بیٹھنے والوں کی تالیف قلوب فرماتے۔جاہلوں کی حرکات پر صبر کیا کرتے،کسی شخص سے خود علیحدہ نہ ہوتے،جب تک کہ وہی نہ چلا جائے۔صحابہ رضی اللہ عنہم سے کمال محبت فرمایا کرتے۔سفید زمین پر (بلا کسی مسند فرش کے(نشست فرمایا کرتے،اپنے جوتے کو خود گانٹھ لیتےاپنے کپڑے کوخود پیوند لگا لیتے۔[1]دشمن اور کافر سے بکشادہ پیشانی ملا کرتے تھے۔‘‘[2]
[1] خلاصہ تاریخ العرب پروفیسر سیڈیو،ص:42
[2] شفا عیاض،ص:312