کتاب: البیان شمارہ 22 - صفحہ 28
خُلقِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم [1]
قاضی محمد سلیمان منصورپوری رحمہ اللہ
جو واقعات لکھے جاچکے ہیں ان سے مختصر طور پر ان مشکلات کا اندازہ بخوبی ہوتا ہے،جن کا سامنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی نبوت کے اظہار،اپنی تعلیم کی اشاعت اور اس تعلیم کے قبول کرنے والوں کی حفاظت میں کرنا پڑا۔
ایک ایسے ملک میں جہاں کوئی حکومت اور قانون نہ ہو۔جہاں خونریزی قتل عام معمولی بات ہو،جہاں کے باشندے وحشت اور غارت گری میں درندوں کے مشابہ اور جہالت ،لایعلقی انعام(جانوروں ) میں سے بدتر ہوں ۔ایک ایسا دعویٰ کا پیش کرنا جو تمام ملک کے نزدیک عجیب اور جملہ قبائل میں مخالفت کی فوری آگ لگا دینے والاہو،کچھ آسان نہ تھا۔پھر اس دعویٰ کا ایسی حالت میں سرسبز ہونا کہ کروڑوں اشخاص کی انتہائی مخالفت اس کے ملیا میٹ کرنے پر دل سے جان سے،زر سے مال سے،سالہا سال متفق رہی ہو۔ بالکل تائید ربانی کا ثبوت ہے۔
گزشتہ واقعات کے ضمن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و محاسن،صفات ومحامدکی چمک ایسی نمایاں ہے۔ جیسی ریت میں کندن اور ان واقعات ہی سے یہ پتہ لگتا ہے کہ مظلومی وبیچارگی اور قوت وسطوت کی متضاد حالتوں میں یکساں سادگی وغربت کے ساتھ زندگی پوری کرنے والا،صرف وہی ہوسکتا ہےجس کے دل پر ناموسِ الٰہی نے قبضہ کر لیا ہو اور اسے علائق دینوی سے پاک کردیا ہو۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے مبارک واقعات ہر ملک اور طبقہ کے فرد اور جماعتوں کے لیے بہترین نمونہ اور مثال ہیں ۔اس بات کےتحت،میں مختصر طورپرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا جو’علمنی ربي فأحسن تأديبي‘ کے مصداق ہیں ،ذکر کروں گا۔
[1] مذکورہ مضمون مؤلف کی سیرت پر مشہور کتاب ’’ رحمۃللعالمین ‘‘ سے ماخوذ ہے