کتاب: البیان شمارہ 22 - صفحہ 26
ساتھ نماز پڑھے جب سستی معلوم ہو تو بیٹھ جائے ۔‘‘ ایک مرتبہ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی اور کافی طویل پڑھائی ۔ایک شخص نے ان کی شکایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کی اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلایا اور فرمایا : ’يا معاذ أفتان أنت أفتان أنت اقرأ بكذا اقرأ بكذا قال أبو الزبيرب(سبح اسم ربك الأعلى )(والليل إذا يغشى)وفي رواية : يا معاذ لا تكن فتانا فإنہ يصلي وراءك الكبير والضعيف وذو الحاجة۔‘[1] ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا اے معاذ تو فتنہ برپا کرنے والا ہے (اگر ایسا نہیں ہے) تو تو نے سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الأَعْلَی اور وَالشَّمْسِ وَضُحَاہا اور وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَی کے ساتھ نماز کیوں نہ پڑھ لی کیونکہ تیرے پیچھے بوڑھے اور کمزور اور صاحب حاجت (سب ہی طرح کے لوگ) نماز پڑھتے ہیں ۔‘‘ اسی طرح مسافر کو قصر وجمع کی رخصت دی ، قتال کے وقت صلاۃ الخوف کی اجازت دی بارش کے باعث نماز جمع کرنے کی اجازت دی ۔ پھر اگر کوئی نماز کھڑے ہوکر نہیں پڑھ سکتا اسے حکم دیا کہ بیٹھ کر پڑھ لے اور اگر بیٹھ کر نہیں پڑھ سکتا تو پہلو پر لیٹ کر پڑھ لے اور اگر پہلو پر بھی نہیں پڑھ سکتا تو اشارے سے پڑھ لے ۔ یہ سب رعایتیں اور رخصتین عظیم رحمت کا مظہر ہیں ۔ روزے کے معاملات میں رحمت: نماز کی طرح روزوں کا معاملہ ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سحری کرنے کا حکم دیا اور فرمایا : تَسَحَّرُوا فَإِنَّ فِي السَّحُورِ بَرَكَةً[2] ’’ سحری کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے۔‘‘ سحری کو مؤخر کرنے کا حکم دیا یعنی آخری وقت میں کرنے کا کہا اور افطاری جلد یعنی اول وقت میں کرنے
[1] صحیح البخاري،جلد اوّل،حدیث: 668 [2] رواه البخاري :1923،ومسلم:1095