کتاب: البیان شمارہ 22 - صفحہ 24
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔
’إِنَّ الدِّينَ يُسْرٌ،وَلَنْ يُشَادَّ الدِّينَ أَحَدٌ إِلاَّ غَلَبَہ، فَسَدِّدُوا وَقَارِبُوا وَأَبْشِرُوا ، وَاسْتَعِينُوا بِالْغَدْوَةِ وَالرَّوْحَةِ وَشَىْءٍ مِنَ الدُّلْجَةِ‘[1]
’’ دین بہت آسان ہے اور جو شخص دین میں سختی کرے گا وہ اس پر غالب آجائے گا، پس تم لوگ میانہ روی کرو اور (اعتدال سے) قریب رہو اور خوش ہو جاؤ (کہ تمہیں ایسا دین ملا) اور صبح اور دوپہر کے بعد اور کچھ رات میں عبادت کرنے سے دینی قوت حاصل کرو۔‘‘
آپ خود بھی عبادات میں تشدد اور سختی سے بچتے اور امت کو بھی اسی کی تلقین فرماتے ۔ ایک موقع پر چند افراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر تشریف لائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت سے متعلق دریافت کیا اور کہنے لگے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو اللہ تعالیٰ نے سابقہ لاحقہ تمام گناہ بخش دئے ہیں اور ہم تو گنہگار ہیں لہٰذا ہمیں کچھ زیادہ ریاضت کرنی پڑے گی ۔ چنانچہ روایت میں ہےکہ :
’جَاءَ ثَلَاثَةُ رَہطٍ إلى بُيُوتِ أزْوَاجِ النبيِّ صَلَّى اللّٰہ عليہ وسلَّمَ، يَسْأَلُونَ عن عِبَادَةِ النبيِّ صَلَّى اللّٰہ عليہ وسلَّمَ، فَلَمَّا أُخْبِرُوا كَأنَّھُمْ تَقَالُّوہا،فَقالوا: وأَيْنَ نَحْنُ مِنَ النبيِّ صَلَّى اللّٰہ عليہ وسلَّمَ؟ قدْ غُفِرَ لہ ما تَقَدَّمَ مِن ذَنْبِہ وما تَأَخَّرَ، قالَ أحَدُہمْ: أمَّا أنَا فإنِّي أُصَلِّي اللَّيْلَ أبَدًا، وقالَ آخَرُ: أنَا أصُومُ الدَّہرَ ولَا أُفْطِرُ، وقالَ آخَرُ: أنَا أعْتَزِلُ النِّسَاءَ فلا أتَزَوَّجُ أبَدًا، فَجَاءَ رَسولُ اللّٰہ صَلَّى اللّٰہ عليہ وسلَّمَ إليھِم، فَقالَ: أنْتُمُ الَّذِينَ قُلتُمْ كَذَا وكَذَا، أما واللّٰہ إنِّي لَأَخْشَاكُمْ لِلّٰہ وأَتْقَاكُمْ لہ، لَكِنِّي أصُومُ وأُفْطِرُ، وأُصَلِّي وأَرْقُدُ، وأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ، فمَن رَغِبَ عن سُنَّتي فليسَ مِنِّي‘[2]
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں تین آدمی آپ کی عبادت کا حال پوچھنے آئے، جب ان سے بیان کیا گیا تو انہوں نے آپ کی عبادت بہت کم خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کی برابری کس طرح
[1] رواه البخاري :39، ومسلم:2816
[2] صحيح البخاری الصفحة أو الرقم: 5063