کتاب: البیان شمارہ 22 - صفحہ 22
ذِفْرَاہ (أصل أذنہ) فسكن، فقال:’مَنْ رَبُّ ہذَا الجَمَلِ؟ لِمَنْ ہذَا الجَمَلِ؟‘،فجاء فتًى من الأنصار،فقال:ہو لي يا رسـول اللّٰہ. فقال: ’ أَفَـلا تَتَّقِي اللّٰہ فِي ہذِہ الْبَھِيمَةِ الَّتِي مَلَّكَكَ اللّٰہ إِيَّاہا؟ فَإِنَّہ شَكَى إِلَيَّ أَنَّكَ تُجِيعُہ وَتُدْئِبُہ[1] ’’ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے (اپنے خچر پر) اپنے ساتھ سوار کرایا اورایک انصاری کے باغ میں تشریف لے گئے وہاں ایک اونٹ نکلا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر رونے کی سی آواز نکالنے لگا اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس اونٹ کے پاس تشریف لے گئے اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگے پس وہ پر سکون ہو گیا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ اس اونٹ کا مالک کون ہے؟ اور پکار کر پوچھا کہ یہ اونٹ کس کا ہے یہ سن کر ایک انصاری جوان بولا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ اونٹ میرا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کیا تو اس جانور کے بارے میں اللہ تعالی سے نہیں ڈرتا جس کا تجھے اللہ نے مالک بنایا ہے اس نے مجھ سے شکایت کی ہے کہ تو اس کو بھوکا رکھتا ہے اور خدمت لینے میں تھکا دیتا ہے۔ ایک اور روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کے حوالے سے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا : اتَّقُوا اللّٰہ في ہذِہ البَھَائِمِ المُعجَمَةِ، فَارْكَبُوہا صَالِحَةً، وَكُلُوہا صَالِحَةً[2] ’’ ان بے زبان چوپایوں کے بارے میں اللہ تعالی سے ڈرو اور ان پر ایسی حالت میں سواری کرو جب کہ وہ قوی اور سواری کے قابل ہوں اور انہیں اچھی طرح ذبح کرکے کھاؤ۔ ‘‘ ( یعنی انہیں ایسے ذبح کرو جس سے ان کو تکلیف نہ ہو )۔ ان بے زبان چوپایوں کے بارے میں اللہ تعالی سے ڈرو، کا مطلب یہ ہے کہ یہ بولنے پر قادر نہیں ہیں کہ اپنی بھوک و پیاس وغیرہ کا حال اپنے مالک سے بیان کر سکیں اس لئے ان کے چارہ پانی کے جو بھی اوقات ہوں ان میں ان کو کھلانے پلانے میں کوتاہی نہ کرو اس میں گویا اس بات کی دلیل ہے کہ چوپایوں کا
[1] رواہ أبو داود وأحمد وصححه الألباني. [2] رواہ أبو داود وصححه الألباني