کتاب: البیان شمارہ 22 - صفحہ 15
بچوں پر رحمت وشفقت
آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کے ساتھ نہایت نرمی وشفقت سے پیش آتے اپنے بچوں اور نواسوں سے شفقت خاص کا معاملہ کرتے ۔ حسن حسین کو بوسہ دیتے ان کو کھلاتے ان کے ساتھ کھیلتے ، اپنے بیٹے ابراہیم کی وفات پر آپ بہت رنجیدہ ہوئے اور فرمانے لگے :
’إِنَّ الْعَيْنَ تَدْمَعُ،وَالْقَلْبَ يَحْزَنُ، وَلَا نَقُولُ إِلَّا مَا يَرْضَى رَبُّنَا،وَإِنَّا بِفِرَاقِكَ يَا إِبْرَاہيمُ لَمَحْزُونُونَ‘[1]
ترجمہ :’’ آنکھیں روتی ہیں اور دل غمگین ہوتا ہے اور ہم نہیں کہتے، مگر وہی بات جس سے ہمارا رب راضی ہے اور ہم اے ابراہیم تمہارے فراق کے باعث غمگین ہیں ۔‘‘
جب بھی بچوں کے پاس سے گذر ہوتا انہیں سلام کرتے ان سے محبت وشفقت اور انسیت کا مظاہرہ کرتے نماز کے دوران بھی کبھی کبھار بچے کی خواہش پوری کردیا کرتے، خطبہ دے رہے ہوتے تو حسن وحسین کو دیکھ کر منبر سے اتر آتے انہیں بوسہ دیتے اورپھر منبرپر چڑھ جاتے ۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
’ قَدِمَ نَاسٌ مِنَ الأعْرَابِ عَلَى رَسُولِ اللّٰہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) فَقَالُوا: أتُقَبِّلُونَ صِبيانَكُمْ؟ فَقَالُوا: نَعم.قَالُوا:لكنَّا–واللّٰہ–مَا نُقبِّل۔فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہ( صلی اللّٰه علیہ وسلم ):’أَوَ أَمْلِكُ إِنْ كَانَ اللّٰہ نَزَعَ مِنْكُمُ الرَّحْمَةَ‘[2]
ترجمہ :’’ اعراب کی ایک جماعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائی اور کہنے لگے : کیا آپ لوگ اپنے بچوں کو بوسہ دیتے ہیں ، صحابہ نے فرمایا ہاں ، وہ کہنے لگے لیکن اللہ کی قسم ہم تو نہیں دیتے ۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ جب اللہ تعالیٰ نے تمہارے دل سے رحمت وشفقت ہی کھینچ لی
[1] روه البخاري :1220، و مسلم :4279
[2] رواہ البخاری:5998 ومسلم:2317