کتاب: البیان شمارہ 22 - صفحہ 146
﴿أَلَا تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَكَثُوا أَيْمَانَہمْ وَہمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ وَہمْ بَدَءُوكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ أَتَخْشَوْنَہمْ فَاللَّہ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَوْہ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِين﴾(التوبة: 13)
’’ کیا تم ان لوگوں سے نہ لڑو گے جنھوں نے اپنی قسمیں توڑ دیں اور رسول کو نکالنے کا ارادہ کیا اور انھوں نے ہی پہلی بار تم سے ابتدا کی؟ کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ تو اللہ زیادہ حق دار ہے کہ اس سے ڈرو، اگر تم مومن ہو ۔‘‘
اس حوالے سےمزیدکافی تفصیل کےساتھ معروف عالم دین ،بہت سی کتب کے مؤلف ومترجم الشیخ ابوعدنان محمدمنیرقمرحفظہ اللہ(ترجمان سپریم کورٹ الخبر،سعودی عرب) اپنی کتاب ’’سیرۃ امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ میں لکھتےہیں :’’سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاایک خاص پہلوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات وسرایاہیں ،جن کے بارے میں معاندین اسلام اوردشمنانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں میں بڑی غلط فہمیاں پیداکررکھی ہیں۔وہ لوگ یہ باور کرانے کی کوشش کرتےہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی نشرواشاعت اورلوگوں کو زبردستی دین قبول کرانے کےلیے نعوذباللہ خوب تلوار چلائی۔اورخون ریزی کی تھی۔ہم ان کے اسی دعوے کاجائزہ لےکردیکھتےہیں کہ اس میں کہاں تک معقولیت ہے؟
حقیقت یہ ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کی ترویج واشاعت تلوارسے نہیں بلکہ اپنے اخلاق عالیہ اور دعوت وتبلیغ سے کی تھی۔اورجوجنگیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےلڑی تھیں وہ جنگیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر مسلط کی گئی تھیں اور صلی اللہ علیہ وسلم نے بحکمِ الٰہی مدافعانہ جہاد کرکے اپنافرض اداکیاتھا۔
صحیح بخاری ومسلم شریف میں مذکورہےکہ:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلائے کلمۃ اللہ کےلیے جن مدافعانہ غزوات وسرایامیں بنفسِ نفیس شرکت فرمائی،ان کی مجموعی تعدادانیس(19)ہے۔اور ان میں سے بھی کل آٹھ میں قتال کی نوبت آئی۔
اور وہ غزوات وسرایا جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کوروانہ فرمایا،ان کی مجموعی تعداد بقول امام ابن اسحاق اڑتیس(38)ہیں ۔
جبکہ ماضی قریب کے محقق سیرت نگار جسٹس علامہ (قاضی محمدسلیمان)منصورپوری(رحمہ اللہ) نے 2ھ