کتاب: البیان شمارہ 22 - صفحہ 13
ترجمہ :’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب بھی کوئی شخص اسلام کے نام پرکسی چیز کا سوال کرتا آپ اسے وہ چیز دے دیتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا آپ نے ایک وادی بھر کر اسے بکریاں عطا کردیں ۔ وہ شخص اپنی قوم کے پاس گیا اور کہنے لگا اے میری قوم اسلام قبول کرلو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اتنا مال دیتے ہیں کہ اس کے بعد غربت کا کوئی ڈر نہیں رہتا،کبھی ایسا ہوتا تھا کہ ایک شخص صرف دنیا کی خاطر اسلام لاتا تھا تو جب وہ اسلام میں تھوڑا سا عرصہ گذار لیتا تو پھر اس کے نزدیک اسلام دنیا ومافیہا سے محبوب ہوجاتا ۔‘‘
الغرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری کرتے ، انہیں نفسیاتی اور طبی تعلیمی سہولتیں مہیا کرتے ۔ وہ بیمار ہوتے تو ان کی تیمارداری کرتے ، ان کی بنیادی ضرورتیں پوری کرتے ۔
بوڑھوں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت اور رحمت :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے نوجوانوں کو یہ تعلیم دی کہ مسلمان بوڑھوں کی عزت واکرام کیا جائے اور اسے اللہ تعالیٰ کی اجلال وتعظیم قرار دیا ۔اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رسیدہ افراد کیلئے شریعی احکامات میں بعض مقامات پر نرمی اور کمی کردی جو اس بات کا مظہر ہے کہ ان کے بوڑھاپے کو مد نظر رکھتے ہوئے ان پر رحمت وشفقت کرتے ہوئے کہ ان کی عمر کا تقاضا ہے کہ وہ یہ کام بجا نہیں لا سکیں گے اس میں کمی اور آسانی فرمادی گئی جس سے دین اسلام بالعموم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بالخصوص امت کے کمزوروں پر رحمت وشفقت کے پہلو نمایاں ہوتے ہیں ۔
ایمان کی حالت میں بوڑھاپے کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے باعث اجر اور رحمت ونور قرار دیا چنانچہ سنن ترمذی میں کعب بن مرہ رضی اللہ عنہ سے روایت منقول ہے فرماتے ہیں میں نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سناکہ :
’مَنْ شَابَ شَيْبَةً فِي الْإِسْلَامِ كَانَتْ لَہ نُورًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ‘[1]
’’ جو شخص اسلام میں بوڑھا ہوگیا تو یہ بڑھاپا اس کے لیے قیامت کے دن نور ہوگا۔‘‘
[1] صححه الألباني في صحيح الترمذي