کتاب: البیان شمارہ 22 - صفحہ 12
کے قرض کا ضامن بن گیا ہو بشرطیکہ مانگنے میں مبالغہ نہ کرے بلکہ اتنے ہی مال یا رقم کا سوال کرے کہ اس سے قرضہ کو ادا کر دے اور اس کے بعد پھر نہ مانگے، دوسرے اس شخص کے لیے جو کسی آفت و مصیبت مثلا قحط و سیلاب وغیرہ میں مبتلا ہو جائے اور اس کا تمام مال ہلاک و ضائع ہو جائے ، چنانچہ اس کو صرف اس قدر مانگنا جائز ہے جس سے اس کی غذا و لباس کی ضرورت پوری ہو جائے یا فرمایا کہ اس قدر مانگے کہ اس کی محتاجگی دور ہو جائے اور اس کی زندگی کے لیے سہارا ہو جائے، تیسرے اس شخص کے لیے جو غنی ہو مگر اس کو کوئی ایسی سخت حاجت پیش آ گئی ہے جسے اہل محلہ بھی جانتے ہوں مثلاً گھر کا تمام مال و اسباب چوری ہو جائے یا اور کسی مصیب و حادثے سے دوچار ہونے کے وجہ سے ضرورت مند بن جائے اور قوم محلہ و بستی کے تین صاحب عقل و فراست لوگ اس بات کی شہادت دیں کہ واقعی اسے سخت حاجت پیش آ گئی ہے تو اس کے لیے اس قدر مانگنا جائز ہے جس سے اس کی ضرورت پوری ہو جائے ۔ یا فرمایا کہ اس کی وجہ سے اس کی محتاجگی دور ہو جائے اور اس کی زندگی کا سہارا ہو جائے۔ قبیصہ! ان تین کے علاوہ کسی اور کو سوال کرنا حرام ہے اگر کوئی شخص ان تین مجبوریوں کے علاوہ دست سوال دراز کر کے کسی سے کچھ لے کر کھاتا ہے تو وہ حرام کھاتا ہے۔ ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی دنیاوی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی آخرت کے بارے میں بڑے فکر مند رہتے اور اگر کوئی شخص اسلام میں داخلے کیلئے مال کی شرط رکھ دیتا تو آپ اس کی اس شرط کو مان لیتے تاکہ وہ اسلام میں ایک دفعہ داخل ہوجائے اور جہنم سے بچ جائے ۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ما سئل رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم على الإسلام شيئاً إلا أعطاہ، ولقد جاءہ رجل فأعطاہ غنماً بين جبلين، فرجع إلى قومہ فقال: يا قوم أسلِموا فإن محمداً يعطي عمن لا يخشى الفقر وإن كان الرجل ليسلم ما يريد إلا الدنيا، فما يلبث إلا يسيرا حتى يكون الإسلام أحب إليہ من الدنيا وما عليھا[1]
[1] صحیح مسلم، کتاب الفضائل،حدیث:2312