کتاب: البیان شمارہ 22 - صفحہ 105
عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ایک واقعہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں بیٹھے اپنی نعل کو پیوند لگارہے تھے۔میں پاس ہی بیٹھی چرخہ کات رہی تھیں ۔میں نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی مبارک پر پسینہ آرہا ہے۔اور اس پسینے کے اندر ایک نور اُبھر رہا ہے۔اور بڑھ رہا ہے۔یہ ایسا نظارہ تھا کہ میں سراپا حیرت بن گئی۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر مجھ پر پڑی تو فرمایا: ’’عائشہ!تو حیران سی کیوں ہورہی ہے؟‘‘ میں نے کہا:’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے دیکھا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی پر پسینہ ہے اور پسینے کے اندر ایک چمکتا نور ہے جسے دیکھ کر میں سراپا چشم بن گئی ہوں ۔اور ابو کبیرہذلی کے ان اشعار کا آپ ہی کو مصداق سمجھتی ہوں ۔واللہ!اگر ہذلی آپ کو دیکھ پاتا تو اسے معلوم ہوجاتا کہ آپ کے سوا اس کا صحیح مصداق کوئی ہو ہی نہیں سکتا ۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’وہ شعر کیا ہیں ؟‘‘ میں نے وہ شعر پڑھ کر سنائے: وَمُبَرَّأٍ مِنْ كُلِّ غُبَّرِ حَيْضَةٍ وَفَسَادِ مُرْضِعَةٍ وَدَاءٍ مُغْيَلِ وَإِذَا نَظَرْتَ إِلَى أَسِرَّةِ وَجْھِہ بَرَقَتْ كَبَرْقِ الْعَارِضِ الْمُتَھَلِّلِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ میں جو کچھ تھا اسے رکھ دیا۔میری پیشانی کو چوما اور فرمایا: مَا سَرِرْتِ مِنِّي كَسُرُورِي مِنْكِ ’’جو سرور مجھےتیرے کلام سے حاصل ہوا وہ سرور تجھے میرے نظارہ سے نہ ہواہوگا۔‘‘ یعنی تو نے مجھےنہایت مسرور اور خوش کردیا۔[1]
[1] السنن الکبری للبیھقی:7/422،وتاریخ بغداد:13/252-253،والسلسلۃ الضعیفۃ،حدیث:4144،اشعار کا ترجمہ یہ ہے۔:’وہ مخصوص ایام جیسی آلائشوں سے پاک،دودھ پلانے والی کی کسی بھی خرابی سے محفوظ اور ہر بیماری سے بچا ہوا ہے۔لہٰذاجب آپ اس کے چہرےکےخطوط کو دیکھیں گے تو ایسے لگے گا جیسے سفید بادل میں بجلیاں کوند رہی ہوں۔‘‘(ن۔ف)