کتاب: البیان شمارہ 21 - صفحہ 99
خوب صورت اور حسین غلاف چڑھاکر یادل فریب اور خوش نماناموں کے ذریعے سے۔کبھی اس کو اولیاء اللہ کی محبت باور کراتا ہے،کبھی اس کو وسیلے کا عنوان دیا جاتا ہے،کبھی کہا جاتا ہے جن کو تم مدد کےلیے پکارتے ہو ان کو تو موت آتی ہی نہیں ہے،وہ صرف دنیا سے پردہ کر جاتے ہیں ،اس لیے ان فوت شدگاں لوگوں کواُلوہی صفات کا حامل سمجھ لیا جاتا ہے اور بلاخوف وخطرکہا جاتا ہے؎ شہباز، کرے پرواز، جانے راز دلاں دے امام بری امام بری میری کھوئی قسمت کرو ہری یا علی مولا میری کشتی پار لگادینا۔ وغیرہ اور یہ نعرے بھی عام ہیں ۔ یا علی مدد،یا رسول اللہ مدد، یا حسین مدد،یا صاحب الزمان اَدْرِکْنی، لبیک یا رسول اللہ،لبیک یا حسین۔ یا رسول اللّٰہ ! اسمع قالنا وانظر حالنا اننی فی بحرم ھم مغرق، خذ بیدی سھّل لنا اشکالنا۔ حالانکہ یہ سب شرکِ صریح کے مظہر ہیں ،لیکن مختلف عنوانات سے اس شرک کا ارتکاب عام ہے،یہ ایسے ہی ہے جیسے شراب کی بوتل پر روح افزا کا لیبل لگادیا جائے،کیا وہ شراب،شربتِ روح افزا میں تبدیل ہوجائےگی؟حرام کے بجائے حلال ہوجائے گی؟اس کا استعمال جائز ہوجائے گا؟نہیں ،یقیناً نہیں ۔کسی حرام چیز کا نام بدل لینے سے وہ حلال نہیں ہوسکتی،اس کی حقیقت نہیں بدل سکتی اور اس کا استعمال جائز نہیں ہوسکتا۔اسی طرح جب شرک کی حقیقت یہ ہے کہ وہ غیراللہ میں ،چاہے وہ پتھر ہو،شجر ہو،نبی ولی ہو،زندہ ہو یا مردہ ہو،اللہ والی صفات تسلیم کرنا ہے۔تو یہ شرک ہر جگہ عام ہے،بُت پرست ہی یہ نہیں کرتے،نام نہاد مسلمان بھی بڑی تعداد میں قبر پرستی کی صورت میں اور بزرگوں کی محبت کے عنوان پر اس کا ارتکاب کررہے ہیں ۔ اور شرک کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا قطعی فیصلہ ہے۔