کتاب: البیان شمارہ 21 - صفحہ 97
اخلاص نیت کے ساتھ اتباع سنت کا لزوم یہ حدیث سُنت اور غیر سُنت کی پہچان کے لیے بڑی اہم ہے۔نماز پڑھنا،روزے رکھنا،عورتوں وغیرہ علائق دنیا سے تعلق نہ رکھنا،یہ سارے امور پسندیدہ ہیں ،ناپسندیدہ نہیں ۔لیکن اگران امور خیر میں بھی سنت کو سامنے نہیں رکھا جائے گا بلکہ اپنی پسند اور مرضی کو دخل دیا جائےگا،تو اخلاص نیت کے باوجود طریقہ نبوی سےانحراف کی وجہ سے،یہ پسندیدہ امور بھی نا پسندیدہ اور سنت ِ رسول سے انحراف قرارپائیں گے۔مذکورہ تینوں اصحابِ رسول نےمحض اللہ کی رضاکے لیے اللہ کی زیادہ سے زیادہ عبادت کرنےغرض سے مذکورہ فیصلے کیے تھے لیکن چونکہ ان میں وہ اعتدال اور توازن نہیں جو سنتِ رسول اور اسلامی تعلیمات کا امتیاز ہے،اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنی سنت سے اعراض قراردیا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اخلاص نیت کے ساتھ ساتھ ہردینی معاملےمیں اتباع رسول بھی ضروری ہے،اس کے بغیر کوئی عمل عنداللہ مقبول نہیں ہوگا۔جب مسنون اورما ٔمورعمل میں اپنی طرف سے کمی بیشی نا مقبول ہے تو جواعمال سرے ہی سے خود ساختہ ہیں ،شریعت میں ان کا وجود ہی نہیں ہے،محض نیک نیتی سے وہ اعمال کس طرح مقبول ومحمود ہوسکتے ہیں ؟ 3. دین سے نا آشنا عوام میں مشرکانہ عقائد اعمال عام ہیں یہ حقیقت بھی بڑی تلخ ہے کہ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد مشرکانہ عقائد واعمال میں مبتلا ہے،غیر اللہ کے نام کی نذرو نیاز اور ان سےاستمداد واستغاثہ عام ہے۔یہی وجہ ہے کہ مسجدیں ویران ہیں لیکن غیراللہ کی قبریں اور ان کے دربار خوب آباد ہیں ،اللہ سے لوگ اتنا نہیں ڈرتے جتنا فوت شدہ بزرگوں سے ڈر اجاتا ہے،قبروں میں مدفون ان بزرگوں کو عالم الغیب،متصرف فی الامور،مشکل کشا،حاجت روا، دور اور نزدیک سے فریادیں سننے والا اور نافع وضارسمجھاجاتا ہے ،حالانکہ یہ ساری صفتیں صرف اللہ کی ہیں ،اللہ کے سوا کوئی مذکورہ صفات کا حامل نہیں ،اور الوہی صفات میں مخلوق کو بھی شریک کرنا،اسی کا نام شرک ہےاور اس کو دیکھتے