کتاب: البیان شمارہ 21 - صفحہ 95
دیکھ لیا جائےتوحدیثِ افتراق امت میں کی گئی پیش گوئی کی صداقت واضح ہوجاتی ہے۔اطاعتِ رسول سے گریز کی دوصورتیں ہیں اور دونوں ہی عام ہیں۔ 1.پہلی صورت ہے کہ اخلاق وکردار،سیاست ومعاشرت،معاملاتِ بیع وشراء،شکل وصورت اور معاشرتی تقریبات میں اطاعت ِ رسول اور اسلامی تعلیمات کا اہتمام نہ کیا جائے،ان کی پابندی سے گریز کیا جائےاور اپنی من مانی کی جائے۔یہ صورت کتنی عام ہے ؟اس کا اندازہ ہر شخص آسانی سے لگا سکتا ہے۔جیسےایک شاعرنے کہاہے؎ وضع میں ہو تم نصاریٰ تو تمدن میں ہنود یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود 2.دوسری صورت یہ ہے کہ جو لوگ مذہب سے وابستہ ہیں یعنی نماز،اور روزہ کا وہ اہتمام کرتے ہیں ،اول تو ان کی نمازیں دیکھ لیں کہ کیا وہ سنت کے مطابق ہیں یانماز کے ساتھ وہ مذاق کرتے ہیں ؟دوسرے ،اخلاق وکردار اور امانت ودیانت کے اعتبار سے ان کی اکثریت بھی،معدودے چند افراد کے،پہلی صورت کے افراد سے مختلف نہیں ہے۔تیسرےان کے ہاں مذہب سے وابستگی کا مطلب احکام وفرائض اسلام کی بجا آوری نہیں ہے،بلکہ بدعات اوررسوم ورواج کی پابندی ہے اور ان کے ہاں اسی کا اہتمام زیادہ ہے۔چوتھے،موضوع یا ضعیف روایات کی بنیاد پر یہ مذہبی طبقہ کئی جشن مذہب کے نام پر مناتا ہےجن میں من گھڑت فضائل بیان کیے جاتے ہیں اور مختلف خانہ ساز اعمال بجا لائے جاتے ہیں ،جیسے جشن میلاد،جشن شبِ معراج،فضائلِ شبِ براءت،فضائل ِ رجب وغیرہ ہیں ،جن کی کوئی فضیلت صحیح احادیث سے ثابت نہیں ہےلیکن ان کے فضائل میں بڑےدھڑلے سے اور نہایت بےخوفی سے من گھڑت احادیث بیان کی جاتی ہیں حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے: مَنْ كَذَبَ عَلَی مُتَعَمِّدًا فَلْیتَبَوَّأْ مَقْعَدَہ مِنَ النَّارِ [1]
[1] صحیح البخاری،کتاب احایث الانبیاء،باب ماذکر عن بنی اسرائیل،حدیث:3461