کتاب: البیان شمارہ 21 - صفحہ 93
تفصیل(السلسلہ الصحیحۃ،للالبانی۔ج1،ص356۔367)میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔تاہم بعض لوگوں نے معنی ومفہوم کے اعتبارسے اس کوردّ کرنے کی مذموم سعی کی ہے کہ اس طرح تو امت محمدیہ کی اکثریت جہنم میں جانے کی مستحق قرارپاجائےگی اور یہ بات ان کے نزدیک نہایت مستبعد(ناممکن)ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ واقعات کے اعتبار سے اس مفہوم میں کوئی استبعادو اشکال نہیں ۔اس کو سمجھنےکےلیے حسب ذیل چھ نکات قابل غور ہیں ۔ 1. بدعت گمراہی اور جہنم میں جانے کا سبب ہے کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ صحابہ وتابعین کے ادوار کے بعد،جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک نے خیرالقرون(سب سے بہتر ادوار)قراردیاہے،دین میں مختلف بدعات کا آغاز ہوگیا تھا اورجب سے اب تک بدعات کی گرم بازاری ہے۔یہ الگ بات ہے کہ ہردور اور ہر علاقے میں بدعات الگ الگ رہی ہیں اور ہیں ،البتہ بعض بدعات پورے عالم اسلام میں مشترک ہیں ،اور مسلمانوں کی اکثریت نے ان خانہ ساز بدعات کو اپنایا ہوا ہے بلکہ ان بدعتی مسلمانوں کی اکثریت اسلام کے احکام وفرائض اور سنن ومستحبات سے تو یکسر غافل ہےلیکن بدعات کااہتمام یہ لوگ بڑے اہتمام،نہایت شوق اور پابندی سے کرتے ہیں ،حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے: من أحدث فی أمرنا ہذا ما لیس منہ فھو رد[1] ’’جس نے ہمارے اس دین میں کوئی نئی چیز نکالی جو اس میں سےنہیں ہے،وہ مردود ہے۔‘‘ اپنے خطبے میں آپ ارشاد فرمایا کرتے تھے: فَإِنَّ خَیرَ الْحَدِیثِ كِتَابُ اللّٰہِ وَخَیر الْہدَى ہدَى مُحَمَّدٍ وَشَرّ الأُمُورِ مُحْدَثَاتُھَا وَکُلّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ ، وَکُلّ بِدْعَۃٍ ضَلاَلَۃٌ۔ [2]
[1] صحیح البخاري،کتاب الصلح،باب إذا اصطلحوا علی صلح جورٍ، حدیث:2697 [2] صحیح البخاری،کتاب الجمعہ،باب تخفیف الصلاۃ والخطبۃ،حدیث:867