کتاب: البیان شمارہ 21 - صفحہ 91
افتراق وانتشار امت کے دور میں اہل حق کون ہوں گے؟ مذکورہ تفصیل سے واضح ہے کہ افتراق وانتشار امت کے دور میں صحابۂ کرام کا منہج وطرزِ عمل ہی نجات اور ہدایت کا واحد راستہ ہے اس لیے کہ یہی وہ پاکباز گروہ ہے جس نے براہ راست پیغمبر ِ اسلام کی صحبت سے فیض یاب اور ضوءِ رسالت سے مستنیر ہوااور پھر منہج نبوی سے یک سرِمُو اِدھر اُدھر نہیں ہوا۔اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں فرمایا: لیاْتین علی أمتی کما أتی علی بنی اسرائیل حذوالنعل بالنعل حتی إن کان منھم من أتی اُمَّہ علانیۃً لکان فی اُمتی مَن یصنع ذلک وإن بنی اسرائیل تفرقت علی ثنتین و سبعین ملۃ و تفترق اُمتی علی ثلاث و سبعین ملۃ کلھم فی النار الّا ملّۃ واحدۃً قالوا: من ھی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ؟ قال ما أنا علیہ وأصحابی۔[1] ’’میری امت بنی اسرائیل کے قدم بہ قدم چلے گی جیسے ایک جوتا دوسرے جوتے کے برابر میں ہوتا ہے حتیٰ کہ اگر بنو اسرائیل میں کوئی شخص ایسا بھی ہو کہ اس نے اعلانیہ طور پر اپنی ماں کے ساتھ منہ کالا کیا ہوگا،تو میری امت میں بھی ایسا (بدبخت)شخص ضرورہوگا جویہ کام کرےگا۔نیز بنو اسرائیل 72 فرقوں میں بٹ گئے تھے اور میری امت 73 فرقوں میں منقسم ہوجائے گی،سب کے سب جہنمی ہوں گے سوائے ایک گروہ کے،لوگوں نے پوچھا:وہ ایک جنتی گروہ کون ہوگا،اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جو میرے اور میرے صحابہ کے راستے پر چلنے والا ہوگا۔‘‘ یہ روایت ایک دوسری سند سے بھی مروی ہے،اس میں حسب ذیل الفاظ ہیں : اِثنْتَانِ وَسَبْعُونَ فِی النَّارِ ، وَوَاحِدَةٌ فِی الْجَنَّةِ ، وَہی الْجَمَاعَةُ [2]
[1] جامع الترمذی،کتاب الایمان،باب ماجاء في افتراق ھذہ الأمۃ،حدیث2641 [2] سنن أبی داؤد۔کتاب السنۃ،باب 1،حدیث4597