کتاب: البیان شمارہ 21 - صفحہ 90
﴿وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہٰجِرِینَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِینَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ ۙ رَّضِی اللّٰہ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِی تَحْتَہا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِینَ فِیہآ اَبَدًا ۭذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ﴾(التوبہ:100) ’’اور (قبول اسلام میں )سبقت کرنے والے مہاجرین اور انصاراور وہ لوگ جنہوں اچھے طریقے سے ان کی پیروی کی ،اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سےراضی ہوگئے اور اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ تیار کیے ہیں جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں ،وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے،یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔‘‘ اسی لیےسیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے بھی صحابۂ کرام کی بابت فرمایا: مَن كانَ مُسْتَنًّا ، فَلْیسْتَنَّ بمن قد ماتَ ، فإنَّ الحی لا تُؤمَنُ علیہ الفِتْنَةُ ، أولئك أصحابُ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ،كانوا أفضلَ ہذہ الأمة،أبرَّہا قلوبًا،وأعمقَھاعلمًا،وأقلَّہا تكلُّفًا،اختارہم اللّٰہ لصحبة نبی ہ ، ولإقامة دِینہ ، فاعرِفوا لہم فضلَہم واتبعُوہم على أثارہم ، وتمسَّكوا بما استَطَعْتُم من أخلاقِھم وسیرِہم ، فإنھم كانوا على الہدَى المستقیم ۔[1] ’’جس نے کسی کا طریقہ اپنانا ہوتو وہ ان کا طریقہ اپنائے جو دنیا سےجاچکے ،اس لیے کہ زندہ(کا طریقہ اپنانے)سے فتنے میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہے۔یہ فوت شدگان کون ہیں ؟یہ اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ،یہ اس امت کے افضل ترین لوگ تھے،دلوں کے پاکیزہ ترین،علم میں سب سے گہرے،تکلف سے دور،ان کو اللہ تعالیٰ نےاپنے پیغمبر کی صحبت(ہم نشینی)کےلیےاور اپنے دین کی اقامت کے لیے چُن لیا تھا۔پس تم ان کی فضیلت کوپہچانو!اور ان کے نقش قدم کی پیروی کرو،اور جہاں تک ہوسکے ان کے اخلاق اور ان کی سیرتوں کو اپناؤ،یقیناً وہ راہ راست پر تھے۔‘‘
[1] مشکوٰۃ،کتاب الایمان،باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ،الفصل الثالث