کتاب: البیان شمارہ 21 - صفحہ 89
وعَضُّوا علیھا بالنواجذ، وإیاكم ومحدثاتِ الأمور،فإن كل محدثة بدعة، وكل بدعة ضلالة[1] ’’میں تم کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور(اپنے حکمران کی)بات سنو اور مانو چاہے وہ حبشی غلام ہی ہو(بشرطیکہ اس میں اللہ کی نافرمانی نہ ہو)بلاشبہ جو میرے بعد زندہ رہےگا،وہ بہت اختلاف دیکھے گا اس لیے تم میرے طریقےاور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کے طریقے کو لازم پکڑنا،اس کو مضبوطی سے تھامنا اور دانتوں سے اس کو پکڑنا اور (دین میں ) نئے نئے کاموں سے بچنا اس لیے کہ (دین میں )ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا: ﴿وَمَنْ یشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَینَ لَہ الْہدٰى وَیتَّبِعْ غَیرَ سَبِیلِ الْمُؤْمِنِینَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِہٖ جَہنَّمَ ۭ وَسَاۗءَتْ مَصِیرًا ﴾(النساء:115) ’’اور جس شخص کے سامنےہدایت واضح ہوجائے اور اس کے بعد وہ رسول کی مخالفت کرے اور مسلمانوں (صحابۂ کرام) کا راستہ چھوڑ کر دوسرے راستے کی پیروی کرے تو ہم اسےاسی طرف پھیر دیں گےجس طرف وہ جانا چاہےاور ہم انہیں جہنم میں ڈالیں گے اور وہ بہت بڑا ٹھکانا ہے۔‘‘ صحابۂ کرام کو خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِہٖ فَقَدِ اھْتَدَوْا ۚ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا ھُمْ فِی شِقَاقٍ ۚ﴾(البقرہ:137) ’’پھر اگر وہ اس چیز پر ایمان لے آئیں جس پر تم ایمان لائے ہوتو بے شک وہ ہدایت پاجائیں گے اور اگر وہ منہ موڑیں تو پھر وہی مخالفت میں ہیں ۔‘‘ ایک دوسرے مقام پر صحابۂ کرام کے نقش قدم پر چلنے والوں کےلیے اللہ نےیہ عظیم فضیلت بیان فرمائی کہ اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے،فرمایا:
[1] سنن ابی داؤد،کتاب السنۃ،باب في لزوم السنۃ،حدیث:4607