کتاب: البیان شمارہ 21 - صفحہ 87
مروجہ بدعات ہی کو اصل دین سمجھ لیاگیا ہے اور جو لوگ اتباعِ رسول کے جذبے سے سرشاری کی وجہ سےان بدعات سے اجتناب کرتے ہیں ،وہ معاشرے میں نکوبن کر رہ گئے ہیں ،ان کو ہدفِ ملامت بھی بنایا جاتا ہے،اور ان کو (نعوذباللہ)گستاخ اور بے دین بھی باور کرایا جاتا ہے ۔گویا وہی صورتِ حال رونما ہوگئی ہے جو اولین اسلام قبول کرنے والے مسلمانوں کی ابتدائے اسلام میں تھی،ان کو معاشرے میں اجنبی اور بیگانہ سمجھا جاتا تھا اور تحقیرآمیز نظروں سے ان کو دیکھا جاتا تھا۔گویا غربتِ اسلام واہل اسلام کی بابت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پیش گوئی فرمائی تھی،وہ ہمارے اس دور پر بھی صادق آئی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھا: بَدَأَ الإِسْلاَمُ غَرِیباً، وَسَیعُودُ غَرِیباً، فَطُوبى لِلْغُرَبَاءِ[1] ’’اسلام اپنے آغاز میں غریب(نووارد اجنبی کی طرح)تھا اور ایک وقت آئےگا کہ وہ پھر غریب(اجنبی)ہوجائےگا،پس ایسے غریبوں کے لیے خوشخبری ہے۔‘‘ غریب،عربی زبان میں اس نو وارد مسافر کو کہا جاتا ہے جس کو کوئی نہیں جانتا،اسلام اور اہل اسلام کی بھی ابتدائے اسلام میں یہی حالت تھی،اسلامی تعلیمات بالخصوص دعوتِ توحید لوگوں کےلیے نہایت تعجب انگیز تھی،انہوں نے کہا: ﴿اَجَعَلَ الْاٰلِـہةَ اِلٰــہا وَّاحِدًا ښ اِنَّ ھٰذَا لَشَیءٌ عُجَاب﴾(سورۂ ص:5) ’’کیااس نے سارے معبودوں کو ایک ہی معبود کردیا ہے،یہ تو یقیناً ایک بہت بڑی عجیب چیز ہے۔‘‘ ﴿ بَلْ عَجِبُوْٓا اَنْ جَاۗءَہمْ مُّنْذِرٌ مِّنْہمْ فَقَالَ الْكٰفِرُوْنَ ھٰذَا شَیءٌ عَجِیبٌ﴾(سورۂ ق:2) ’’بلکہ انہوں نے تعجب کیا کہ ان کے پاس انہی میں سے ایک ڈرانے والا (پیغمبر)آیا،پس کافروں نے کہا،یہ تو عجیب بات ہے۔‘‘ ﴿فَقَالُوْٓا اَبَشَرٌ یہدُوْنَنَا ۡ فَكَفَرُوْا وَتَوَلَّوْا﴾(التغابن:6)
[1] سنن ابن ماجہ،کتاب الفتن،باب بدأ الاسلام غریباً،حدیث 3986