کتاب: البیان شمارہ 21 - صفحہ 85
یعنی سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ نے اس مشرک کی بات پر شرمندگی محسوس نہیں کی بلکہ بڑےفخرسے اسلام کی کاملیت کا اظہار واعتراف فرمایا،کیونکہ یہ کاملیت بلاشبہ اسلام کا امتیاز ہے،ایسا کامل دین،مکمل دستورِحیات اور جامع نظامِ زندگی اسلام کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔اسی لیے امام مالک رحمہ اللہ نے بجا طور پر فرمایا تھا: من ابتدع فی الإسلام بدعةً یراہا حسنة فقد زعم أن محمدًا صلى اللّٰہ علیہ وسلم خان الرسالة، لأن اللّٰہ یقول: ﴿ اَلْیوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِینَكُمْ﴾ فما لم یكن یومئذ دینًا فلا یكون الیوم دینًا[1] ’’جس نے اسلام میں (دین سمجھ کر)کوئی بدعت ایجاد کی اور اس کو اچھا سمجھا(اس کو’’بدعت حسنہ‘‘ باور کیا یا کرایا)تو اس نے یقیناً یہ خیال کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے رسالت کی ادائیگی میں خیانت کی،اس لیے کہ اللہ تو فرماتا ہے:’’آج میں نے تم پر تمہارا دین مکمل کردیا۔‘‘ پس جو کام اُس(تکمیل دین کے) وقت دین نہیں تھا،وہ آج بھی دین (اجروثواب والا کام) نہیں ہوسکتا ۔‘‘ علاوہ ازیں بدعتی اللہ کے اس فرمان کو بھی جھٹلاتا ہے ،اللہ تعالیٰ توفرماتاہےمیں نے دین مکمل کردیا لیکن بدعتی اپنے طرز عمل سے کہتا ہے کہ نہیں ،دین مکمل نہیں ہوا اس میں تو فلاں فلاں رسم، فلاں فلاں عمل اورفلاں فلاں جشن بھی ہونا چاہیے تھا۔ یا پھر وہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ(نعوذباللہ) بھول گیا کہ اس نے فلاں اور فلاں عمل کی بابت کچھ بتلایا ہی نہیں ،حالانکہ وہ تو بہت ضروری تھا،کیا یہ اللہ کی توہین نہیں ،اس پر طعن نہیں ؟ اللہ تعالیٰ نے تو اپنی بابت فرمایا ہے: ﴿وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِـیا﴾(سورہ مریم:64) ’’آپ کا رب بھولنے والا نہیں ہے۔‘‘
[1] الاعتصام،للامام الشاطبی:1/64،65،بہ تحقیق سلیم الھلالی،طبع 1992ء