کتاب: البیان شمارہ 21 - صفحہ 82
منھا شیطان یدعو إلیہ،ثُمَ قَرَأَ ہذِہِ الآیۃ [1] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےایک خط کھینچا اور فرمایا:’’ یہ اللہ کا راستہ ہے۔‘‘ اور کچھ خطوط اس کے دائیں جانب اور کچھ خطوط اس کی بائیں جانب کھینچے اور فرمایا:’’ یہ مختلف راستے ہیں اور ان میں سے ہر راستے پر شیطان بیٹھا ہوا ہے،وہ ان کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے۔‘‘اورپھر آپ نے وہی(سورۃ الانعام کی مذکورہ)آیت پڑھی۔‘‘ قرآن کریم میں بھی صراطِمستقیم کےلیے واحد کا صیغہ استعمال کیا گیا ہےاور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک ہی خط کھینچ کر اسے اللہ کا راستہ بتلایا ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کا، قرآن کریم کا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ ایک ہی ہے،ایک سے زیادہ نہیں ۔ اس لیے پیروی صرف اسی ایک راستے کی کرنی ہے،کسی اور کی نہیں ۔یہی امت مسلمہ کی وحدت و اجتماع کی بنیاد ہے جس سے ہٹ کر یہ امت مختلف فرقوں اور گروہوں میں تو بٹ سکتی ہے جیسے کہ بٹی ہوئی ہے مگر مجتمع نہیں ہوسکتی۔ علاوہ ازیں یہ راستہ جس طرح ایک ہے،اس طرح واضح بھی ہے،اس میں نہ ابہام ہے اور نہ اس کا سمجھنا مشکل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قد تركتكم على البیضاء لیلہا كنھارہا، لا یزیغ عنھا بعدی إلا ہالك[2] ’’میں تمہیں ایک روشن دین پر چھوڑ کر جارہاہوں ،جس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے،میرے بعداس سے انحراف وہی شخص کرےگا جس کے مقدر میں ہلاکت ہوگی۔‘‘ اس لیے جس طرح یہ ایک راستہ ہی ہدایت اور نجات کا ہے،اسی طرح اختلاف وانشقاق سے بچنے کا واحد طریقہ بھی اسی راستے کا اتباع ہے۔یہی وجہ ہے کہ باہمی اختلافات کے خاتمے کےلیے ہمیں اصول دیا گیا ہے:
[1] الموسوعۃ الحدیثیۃ:7/208شیخ احمد محمد شاکر مصری مرحوم نے اسے صحیح کہا ہے۔دیکھیے مسند احمد بہ تحقیق احمد شاکر۔6/89،رقم۔4142 [2] ابن ماجہ،المقدمہ،حدیث:43