کتاب: البیان شمارہ 21 - صفحہ 76
جسمانی کا انکار ہے، حیات ونزول عیسیٰ کا انکار ہے،حدّرجم کاانکار ہے،جنت میں رؤیت باری تعالیٰ کا انکار ہے،پل صراط کا انکارہے، خروج دجال وظہور یاجوج وماجوج کا انکار ہے، متعدد معجزات قرآنی کا انکار ہے۔ (جیسے حضرت موسیٰ کے فلق بحر کا انکار،حضرت داؤد کے لوہے کی نرمی سے انکار،حضرت ایوب کے ایڑی مارنےسے چشمے کے پھوٹ پڑنے سے انکار، ابرہہ کے لشکر کو طیر ابابیل کے کنکریاں مارنے سے انکار ، وغیرہ) حدیث وسنت کی اختراعی تعریف کرکے حدیث کی حجیت سے انکار اور صحیحین سمیت تمام صحیح احادیث کو ظنی اور مشکوک قرار دینا اور سنت سے مراد صرف امت کے تواتر عملی کو قرار دینا ، وغیرہ ، بگوی صاحب خود وضاحت فرمادیں کہ یہ قابل تعریف تفردات ہیں یا سراسر زیغ وضلال ہے؟۔ اگر بگوی صاحب فرمائیں کہ مذکورہ باتیں ان پر اتہام ہیں ، تو ان کا بار ثبوت راقم کے ذمے ہے ۔ ان شاءاللہ ایک ایک بات کا ثبوت۔ ناقابل تردید ثبوت۔ راقم مہیا کرے گا۔ ایک دوسری تشویش ناک بات یہ ہے کہ سطح بین حضرات یا ان کے حلقۂ ارادت نے ان کے گرد عظمت کا ایسا ہالہ بُن دیا ہےکہ ان کے گمراہانہ اور انکار حدیث پر مبنی تفردات کو ’’علمی شاہکار‘‘ باور کرایا جا رہاہے۔ ان حالات میں نہایت ضروری ہے کہ فراہی گروہ کے افکار کا ، جس کے سب سے بڑے حامی اور شارح اصلاحی صاحب ہیں ، تفصیلی جائزہ لیا جائے ۔ الحمدللہ، اللہ تعالیٰ کی توفیق سے راقم نے اس پر کام شروع کیا ہوا ہے۔ اصلاحی صاحب نے اپنی ’’شروح بخاری‘‘ اور تفسیر’’ تدبر قرآن‘‘ میں صحیح احادیث کےبر خلاف جہاں جہاں اپنے تفردات کا اظہار اور مسلّمات اسلامیہ کا انکار کیا ہے، اس پر تحقیق و تنقید کا کام جاری ہے وبیداللّٰہ التوفیق والتکمیل راقم کو اصلاحی صاحب سے نہ کوئی بغض و عناد ہے اور نہ ان کی علمی حیثیت سے انکار۔ لیکن اصل بات گمراہانہ افکار کی ہے ، کسی کے علم و فضل کے حوالے سے گمراہی کو سندجواز نہیں دی جا سکتی اور نہ علمی دلائل سے ان کی تردید و تغلیط سے گریز ہی کیا جا سکتا ہے ۔ یہ علمائے حق اور پاسداران مسلک سلف اور حدیث رسول