کتاب: البیان شمارہ 21 - صفحہ 73
ناقابل برداشت ہے یا غیر اہم ۔ لیکن جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے کج فکری وکج روی سے محفوظ رکھا ہے اور وہ قرآن وحدیث کے فہم وتعبیر میں سلف، یعنی صحابہ وتابعین کے منہج ہی کو حق سمجھتے ہیں ، اسی طرح ان کے نزدیک ذاتی تعلقات اور دنیوی مصلحتیں ، دینی وایمانی تقاضوں کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں ، ان کے لیے فکر فراہی واصلاحی کی اس عظیم گمراہی کی وضاحت یقیناً ان کی ایمانی بصیرت وایقان میں زیادتی کا باعث اور ان کے قلب وذہن کی تسکین میں اضافے کا ذریعہ ثابت ہوگی۔ ان شاء اللہ العزیز۔
ولو کرہ الکافرون والمنکرون للحدیث۔
دو مثالوں سے مذکورہ نکتے کی وضاحت:
اوپر بعض مدیران جرائد کے کردار کا جو ذکر آیا ہے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کا دستاویزی ثبوت بھی قارئین کرام کے سامنے پیش کردیا جائے، کیونکہ یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے اور تاریخی ریکارڈ کے طور پر اس کی محفوظیت میں افادیت کے کئی پہلو ہوسکتے ہیں ، بالخصوص ان مدیران کا یہ پہلو کہ حق کے معاملے ان حضرات نے مداہنت، مصلحت یا ذاتیات کو زیادہ اہمیت دی دراں حالیکہ حق، اہل حق کے نزدیک ، سب سے زیادہ اہم اور سب مصلحتوں پر بالا ہونا چاہیے، اس مداہنت کی دو مثالیں ملاحظہ ہوں :
1. ماہنامہ ’’شمس الاسلام‘‘ بھیرہ نے ’’مولانا اصلاحی نمبر‘‘ شائع کیا جسے پڑھ کر لاہور کے ایک صاحب۔ پروفیسر طارق بٹ صاحب۔ نے تنقیدی تبصرہ تحریر کیا اس میں غامدی صاحب کو اصلاحی صاحب کا گناہ جاریہ بھی لکھا، یہ تبصرہ ماہنامہ ’’البرہان‘‘ لاہور میں شائع ہوا، راقم نے یہ تبصرہ پڑھ کر یہ مناسب خیال کیا کہ مدیر ’’البرھان‘‘ کو مولانا اصلاحی کی ’’تدبر قرآن‘‘ پر اپنی تحریر کردہ تنقید اشاعت کے لیے بھیجی جائے تاکہ ’’البرھان‘‘ کے قارئین کے علم میں بھی اصلاحی صاحب کی گمراہیاں آجائیں ۔ چنانچہ راقم نے زیر ترتیب مسودے کا ایک حصہ ڈاکٹر محمد امین صاحب مدیر ’’البرھان‘‘ کو بھیج دیا ، اور حسب ذیل مکتوب بھی ان کے نام لکھا: