کتاب: البیان شمارہ 21 - صفحہ 72
اس طرح کی عظیم گمراہیاں نہیں ہیں ، اکثر اہل علم کے ذہنوں میں ان کی انہی تحریروں کا نقش قائم ہے۔ دوسرے دور کی تحریریں یا تو انہوں نے پڑھی نہیں ہیں ، یا اگر پڑھی ہیں تو ان کی عظمت کے نقش نے، جو ان کے ذہنوں میں بیٹھا ہوا ہے، ان کی مذکورہ غلطیوں کی طرف ان کا ذہن منتقل ہی نہیں ہونے دیا۔ 1. بعض لوگ ان کی علمی شہرت کی وجہ سے پڑھے بغیر ہی ان کی علمی عظمت کاہیولیٰ اپنے دماغوں میں بٹھائے ہوئے یا ان کی عقیدت وارادت کے بت اپنے حریم دل کے طاقوں میں سجائے ہوئے ہیں ۔ 2.بعض لوگ اپنے یا اپنے بزرگوں کے ساتھ مولانا اصلاحی کے دیرینہ تعلقات کو نبھاتے ہوئے ان پر علمی تنقید کو ناپسند کرتے ہیں ، یا تعلق کے نازک آبگینے کو ٹھیس پہنچانا نہیں چاہتے۔ 3.ان کا حلقۂ ارادت اور حلقۂ تلمذ تو اس غلو عقیدت کا شکار ہے کہ ان کی کسی غلطی کو غلطی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے بلکہ ان کی غلطی بھی ان کے نزدیک ’’عظیم خدمت‘‘ ہے۔ جیسے ان کے ایک شاگرد نے اصلاحی صاحب کی بعض صحیح بخاری کی روایات کے انکار کو ان کا ’’کارنامہ‘‘ قرار دیا ہے، جیسے حدیث ہرقل پر مولانا اصلاحی کی تنقید ہے۔ اسی طرح حد رجم کی متفق علیہ احادیث اور اجماعی حدکے انکار کو یہ طبقہ مولانا فراہی ومولانا اصلاحی کا عظیم کارنامہ سمجھتا ہے اور اس کارنامے پر ان کو خراج تحسین پیش کرتا ہے۔ (دیکھیے: شش ماہی ’’علوم القرآن‘‘ علی گڑھ (بھارت) مولانا اصلاحی نمبر اور جاوید احمد غامدی کی ’’میزان‘‘) عقیدت کے ان اندھوں نے ان کو ’’امام معصوم‘‘ کا درجہ دے رکھا ہے۔ 4.بعض علمی ودینی رسائل کے مدیران گرامی مولانا اصلاحی پر تنقید کو اس لیے نامناسب سمجھتے ہیں کہ اس سے ان کے کچھ قارئین کرام ناگواری محسوس کریں گے، ان کے نزدیک یہ دنیوی مصلحت عظیم تردینی مصلحتوں اور احقاق حق کے فریضے سے زیادہ اہم ہے۔ اس کوتاہیٔ فکر یا مصلحت پر ہم سوائے إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون پڑھنے کے اور کیا کرسکتے ہیں ؟ مذکورہ قسم کے افراد کے لیے تو ظاہر بات ہے کہ مولانا اصلاحی کے زیغ وضلال پر مبنی افکار پر تنقید یا تو