کتاب: البیان شمارہ 21 - صفحہ 70
8.بے سروپارو ایات کی بنیاد پر مفسرین کو بے نقط سنانا، جب کہ محقق مفسرین نے ان کا اپنی تفاسیر میں ذکر ہی نہیں کیا ہے۔ دیکھیے: ﴿ اَخْرَجْنَا لَہمْ دَآبَّةً مِّنَ الْاَرْضِ .. ﴾(النمل :82) کی تفسیر اور سورۃ الحج: 52 کی تفسیر اصلاحی ۔ 9.شان نزول کی صحیح بلکہ متفق علیہ حدیث کو ’’لا یعنی‘‘ روایت قرار دینا (تدبر : 4/56) 10.مفسرین کی تفسیر کو ’’گھپلا‘‘ قرار دینا ۔ (دیکھیے: تدبر، سورۃ الانبیاء، ص:320) 11.قرآن مجید میں معنوی تحریفات کا ارتکاب۔ (دیکھیے: سورۃ القیامۃ: 23 میں دو معنوی تحریفیں ) یعنی ایک نہایت مختصر سی آیت میں دو تحریفیں (2) سورۂ بنی اسرائیل:79 میں معنوی تحریف۔ (3) سورہ ٔ ص، آیت﴿وَ اَلْقَینَا عَلٰى كُرْسِیہٖ جَسَدًا ﴾ میں لفظی ومعنوی تحریف (4) سورۃ القلم ، آیت :42 میں لفظ ’ساق‘ کے معنی میں تحریف۔ (5) سورۃ النساء:1 میں ’منھا‘ کا ترجمہ من جنسھا کرکے معنوی تحریف۔ (6)سورۂ سبا:12 میں معنوی تحریف۔ 12.نظم کے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود حسب ذیل مقامات پر نظم قرآن کی دھجیاں بکھیر دی ہیں ۔ مثلاً: سورۃ البقرہ:232، سورۃ الانفال: سورۂ بنی اسرائیل:79، سورۂ یونس، سورۂ نجم کی تفسیر سورۃ الاحزاب:28-29 کی تفسیر، سورۃ التحریم کی تفسیر ، سورۃ الفیل کی تفسیر، وغیرہ ان تمام مقامات کی تفسیر نظم کے یکسر خلاف ہے۔ 13.معجزات کا انکار، یا ان کی عجیب وغریب توجیہ وتاویل تاکہ ان کی معجزانہ حیثیت باقی نہ رہے، اس کی تفصیل ’’قرآنی معجزات کا انکار‘‘ عنوان کے تحت ملاحظہ فرمائیں ۔ 14.اسلامی مسلّمات کا انکار، جیسے معراج کا انکار ، نزول عیسیٰ اور ان کے رفع آسمانی کا انکار، دجّال کا انکار اوراس کا استہزاء وغیرہ۔ 15.اجماع کا انکار ، جیسے حدّرجم کا انکار جس پر صحابۂ کرام سمیت پوری امت کا اجماع ہے۔ 16.شریعت سازی کا ارتکاب، جیسے غنڈہ گردی کی تعزیری سزا رجم قرار دینا جب کہ اسلام میں