کتاب: البیان شمارہ 21 - صفحہ 69
کی طرف غلط باتوں کا انتساب بھی کیا ہے ورنہ قرآن کریم میں تحریف معنوی کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اس طرح جگہ جگہ ایسی باطل توجیہات وتاویلات کی ہیں جو توجیہ القول بما لایرضیٰ بہ القائل کی مصداق ہیں ، یعنی گمراہ فرقوں کی جو جو گمراہیاں ہیں ، وہ سب اس فراہی گروہ میں پائی جاتی ہیں ، یوں یہ فرقہ تمام گمراہ فرقوں کی گمراہیوں کا مجموعہ ہے۔ اس میں
1.بیسیوں صحیح اور متفق علیہ احادیث کا انکار ہے۔
2.متعدد منکر اور ضعیف روایات سے استدلال ہے۔
3.محدثین کے وضع کردہ تحقیق حدیث کے اصولوں کو ناکافی قرار دیتے ہوئے نئے اصول وضع کیے تاکہ جس صحیح حدیث کو وہ ردّ کرنا چاہیں رد کردیں ، اور جس منکر اور ضعیف روایت کو مدار استدلال بنانا چاہیں ، وہ آسانی سے کرسکیں ، اور یہ دونوں کام اصلاحی صاحب نے ڈنکے کی چوٹ پر کیے ہیں ۔ اس کی الم ناک تفصیلات آپ اس کتاب میں جگہ جگہ ملاحظہ فرمائیں گے۔
4.صحیح احادیث کو ردّ کرنے کے لیے مفروضے گھڑے تاکہ صحیح احادیث کو بھیانک رُوپ میں پیش کیا جاسکے ۔ (دیکھیے سورۃ الاحزاب کی من گھڑت تفسیر پر ہمارا نقد) ۔
5.قرآن کی بیان کردہ حقیقت کو جھٹلانے کے لیےتفسیر میں قرآن کی طرف منسوب اپنی طرف سے اضافہ (دیکھیے: اُرْکُضْ بِرِجْلِکَ.. (سورہ ص: 42) کی تفسیرِ اصلاحی پر نقد)
6.اپنی بات کی پخ میں محدثین کی طرف جھوٹا انتساب۔ (دیکھیے: سورۂ دخان: 10 کی تفسیر میں ہماری وضاحت) اس طرح حدّ رجم کو فقہ کی طرف منسوب کرکے اسے فقہاء کی ایجاد قرار دینا۔ (دیکھیے سورہ ٔنور کی تفسیر اصلاحی)
7.نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک کو (نعوذ باللہ) ’تنکح‘ ( البقرہ: 230) کے معنی ومفہوم سے نا آشنا قرار دینا، نیز اس لفظ کے نبوی مفہوم کا استہزاء واستخفاف۔