کتاب: البیان شمارہ 21 - صفحہ 67
فرماتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو دین کی صحیح سمجھ عطا فرما دیتا ہے، اور مسلمانوں کی ایک جماعت ہمیشہ حق کے لیے لڑنے والی ہوگی اور وہ قیامت تک اپنے مخالفین (حق کے خلاف گروہوں ) پر (دلائل کے اعتبار سے) غالب رہے گی۔‘‘[1]
یہ امت کس طرح گمراہ ہوئی؟ اس کی سب سے بڑی وجہ صحابۂ کرام کے منہج سے انحراف ہے۔ صحابۂ کرام کا منہج کیا تھا؟ صحابۂ کرام نے سچے دل سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ اور طریق کو اپنایا، اس سے بال برابر اِدھر ُادھر نہیں ہوئے۔قرآن کو بھی انہوں نے اسی طرح سمجھا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھا اور سمجھایا اور احادیث رسول کو بھی انہوں نے حرزجان بنایا۔ اپنی طرف سے انہوں نے نہ قرآن کریم میں وہ موشگافیاں کیں جو بعد کے گمراہ فرقوں نے کیں ، اور نہ احادیث کو ردّ کرنے کے لیے ایسے خانہ ساز اصول گھڑے جن کی بنیاد پر احادیث سے گریز واعراض آسان ہوجائے۔
امت مسلمہ کی اکثریت نے صحابۂ کرام کے اس منہج کو چھوڑ دیا اس لیے قرآن کریم کے محفوظ ہونے کے باوجود، قرآن سے انہوں نے رہنمائی حاصل کرنے کے بجائے اس سے غلط استدلالات کیےتاکہ اپنی اختیار کردہ گمراہی کو قرآن کے سرمنڈھ دیں ۔ اسی طرح احادیث کو خوش دلی سے قبول نہیں کیا بلکہ ان سے جان چھڑانے کے لیے انہوں نے ایسے ایسے اصول گھڑے کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ یعنی بظاہر، یا زبان کی حد تک حدیث کے ماننے کا اقرار لیکن بہ لطائف الحیل اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی سعی ٔ مذموم۔
اس انحراف اور زیغ وضلال سے صرف وہ ایک طائفۂ حقہ بچا جس کی نوید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ حدیث میں دی ہے، اسی کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی (جو قرآن وحدیث کی شکل میں موجود ہے) حفاظت کا کام لیا ہے اور یوں اسلام گمراہ فرقوں کی ساری تگ وتاز کے باوجود محفوظ ہے اور قیامت تک
[1] صحیح مسلم،کتاب الامارۃ، باب،لاتزال طائفۃ من امتی ظاھرین علی الحق، لایضرھم من خالفھم، حدیث:1037، (بترقیم فواد عبدالباقی) ایضاً صحیح البخاری، المناقب، باب 28، حدیث: 3640