کتاب: البیان شمارہ 21 - صفحہ 66
لیے تھا۔ رسالت عامّہ اور ابد تک رہنے والی رسالت، یہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصّہ ہے اور اسی وجہ سے آپ کی دونوں چیزوں ۔ قرآن اور اس کی تشریح (حدیث)۔ کو بھی محفوظ رکھا گیا ہے۔ فللّٰہ الحمد والمنۃ علیٰ ذلک ان دونوں چیزوں کی حفاظت کی تفصیل قارئین کرام زیر نظر کتاب میں ملاحظہ فرمائیں گے۔ بلاشکّ وشبہ یہ دونوں چیزیں محفوظ ہیں جن سے اول المسلین صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے فائدہ اٹھایا اور دونوں سے رہنمائی حاصل کی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے صحابۂ کرام کے منہج کو’ سبیل المؤمنین‘ (مومنوں کا راستہ) بھی قرار دیا اور اس سے انحراف کو گمراہی اور جہنمی ہونے کا باعث بتلایا۔ (سورۃ النساء:4/ 115) لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو پیشن گوئیاں فرمائی تھیں ، ایک تو یہ کہ امت محمدیہ اپنی پیش رو امتوں (یہود ونصاریٰ) کی گمراہی میں پیروی کرے گی اور ان کے قدم بہ قدم چلے گی۔[1] دوسری یہ کہ میری امت پچھلے لوگوں (یہود ونصاریٰ) ہی کی طرح متعدد (73) فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی، یہ سارے فرقے جہنمی ہوں گے، صرف وہ ایک گروہ مستحق جنت ہوگا جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر چلنے والا ہوگا۔ اس کے لیے بعض روایات میں ’الجماعۃ‘ کا لفظ ہے جس سے مراد صحابہ کی جماعت ہے۔[2] مطلب دونوں کا ایک ہی ہے، یعنی جنتی گروہ صرف وہ ہے جس پر آج میں اور میرے صحابہ قائم ہیں ، یعنی صحابہ کے منہج کے پیروکار ہی نجات ابدی کے مستحق ہوں گے۔ اسی طرح ایک خوش خبری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دی ہے کہ ’’جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ
[1] صحیح البخاری،کتاب احادیث الانبیاء، باب نزول عیسیٰ ابن مریم، حدیث:3456 [2] سنن ابی داؤد، کتاب السنۃ، باب شرح السنۃ، حدیث4597، (اور بعض میں الفاظ ہیں ’ما انا علیہ وأصحابی)، الابانۃ الکبریٰ489\2، حدیث:532