کتاب: البیان شمارہ 21 - صفحہ 61
رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کومنجانب اللہ یہ توفیق بھی مہیاہوئی کہ آپ اس دنیائےفانی سےتشریف لے جانے سے قبل دین کو مکمل طور پر نکھار اور روشن فرماچکے تھے:’ترکتکم علی البیضاء،لیلھا ونھارھاسواء‘رات اور دن کے فرق کی مانند ،حق وباطل کے مابین ایک حدِفاصل قائم فرماچکے تھے،اس دین میں کوئی خفاء یا غموض وابہام نہیں ہے،ہرچیز انتہائی نکھری ہوئی موجودہے۔ فللہ الحمدوالمنّۃ. اللہ رب العزت کا ایک احسان عظیم یہ بھی ہے کہ اس نے اس دین کی قیامت تک کےلیےحفاظت کا وعدہ فرمالیا،بلکہ یہ حفاظت اپنے ذمہ لے لی: ﴿اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ﴾(الحجر:9) ہمیں یقینِ کامل ہے کہ ہمارا دین قیامت تک محفوظ ومتمیزرہے گا،ایسانکھراہواکہ ملحدین ومبطلین کی سازشوں اور دسیسہ کاریوں سے بالکل پاک اورصاف اور ان کے وارد کردہ مغالطات وشبہات سے قطعی محفوظ وسالم ۔ حفاظتِ دین کےلیے اللہ تعالیٰ کے پاس بے شمار راستےہیں ،مختلف طاقتوں کی صورت میں ان گنت لشکر ہیں ،جن کا علم اسی کے پاس ہے:﴿وَمَا یعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّكَ اِلَّا ہُو ۭ ﴾(المدثر:31) اللہ تعالیٰ کے ان لشکریوں او رسپاہیوں میں ایک انتہائی اہم اورقابل ذکر جتھّا علمائے ربّانیین کا ہے،جنہیں راسخین فی العلم اوروارثانِ علومِ نبوت ہونے کا شرف حاصل ہے،جو اپنی اعمار اور نفائس وانفاس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت (قرآن وحدیث) کو سمیٹنے میں صرف کرتےہیں اور اس عظیم مقصد کےلیےہمہ وقت مستعد رہتے ہیں ،انہیں دنیاوی مال ومنال اور مناصب ومفاوض کی نہ تو کوئی تمناہوتی ہےاور نہ وہ کسی قسم کی بےفائدہ سعی اور مسابقت ہی میں اپنی جانیں کھپاتے ہیں ۔ ان کی زندگی کے مقاصدِ جلیلہ اور اہدافِ نبیلہ میں سرفہرست رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےاس عظیم ورثے کی تطہیر وتنزیہ شامل ہے۔ دین ِحق میں کسی بدعت یاالحاد کے ادنیٰ سے عنصرکا تدخل بھی ان کےلیے ناقابل برداشت ہے۔