کتاب: البیان شمارہ 21 - صفحہ 6
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بدعی فرقوں پر تبصرہ کرتے ہوئے معتزلہ کے بارے میں لکھا ہے:
’و المعتزلۃ تقول: لو أن المحدثین ترکوا ألف حدیث فی الصفات و الأسماء و الرؤیۃ ‘ (السیر: ۱۰/۴۵۵)
’’معتزلہ کہتے ہیں کہ کاش محدثین اسماء و صفات اور جنت میں اللہ تعالیٰ کے دیدار سے متعلق ایک ہزار احادیث بیان کرنا چھوڑ دیں ۔‘‘
گویا معتزلہ صرف اسماء و صفات اور رؤیتِ باری تعالیٰ کے متعلق ایک ہزار احادیث کے منکر ہیں ۔ ان کے باقی افکار پر انکارِ احادیث مستزاد ہے۔ مگر اِدھر مولانا اصلاحی ہیں جو معتزلہ کی ہم نوائی پر یک گونا فخر کرتے ہیں ، چنانچہ جب ان سے پوچھا گیا کہ ’’آپ بڑی آسانی سے معتزلہ کی ہاں میں ہاں ملا دیتے ہیں ، جب کہ علماء ان کو ایک گمراہ فرقہ قرار دیتے ہیں ؟‘‘ تو اس کے جواب میں اصلاحی صاحب نے فرمایا:
’’معتزلہ سے جو سوئے ظن علماء کو ہے وہ مجھے کبھی نہیں رہا ہے۔ واقعہ یہ ہے اگر کوئی میرے بارے میں یہ کہے کہ یہ معتزلی ہے تو میں اس کو گالی نہیں سمجھتا۔‘‘[1]
گویا اصلاحی صاحب معتزلہ سے حسن ظن رکھتے ہیں اور اپنے لیے معتزلی کہلانے کو بھی برا نہیں سمجھتے۔ جب امرِ واقع یہ ہے تو انھیں معتزلہ کی طرح اگر منکرِ حدیث کہہ دیا گیا ہے تو اس سے کسی کو جز بز ہونے کی ضرورت نہیں ۔ بالخصوص جب کہ اصلاحی صاحب معتزلہ کی ہم نوائی میں رؤیتِ باری تعالیٰ، معراجِ جسمانی اور عذابِ قبر وغیرہ کا انکار کرتے ہیں ۔ معتزلہ جس طرح معجزات کے منکر ہیں ، اصلاحی صاحب نے بھی بہت سے قرآنی معجزات کا انکار کیا ہے جس کی تفصیل محترم حافظ صاحب نے باحوالہ بیان کی ہے۔
اصلاحی صاحب کے انکارِ حدیث کے ثبوت کے علاوہ حافظ صاحب نے اصلاحی صاحب کے متعدد تضادات بھی ذکر کیے ہیں جو بیس صفحات پر مشتمل ہیں اور بڑے حیرت انگیز ہیں ۔
محترم حافظ صاحب نے اصلاحی صاحب کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے وہ ان کے نظریۂ حدیث کے تناظر میں ہی لکھا ہے۔ حدیث کی توضیح و تشریح یا قرآن مجید کی تفسیر و تعبیر میں جہاں جہاں کھیل کھیلا ہے، اس
[1] مولانا امین احسن اصلاحی، ص: ۳۱۱، ۳۱۲