کتاب: البیان شمارہ 21 - صفحہ 57
زیادہ پسندیدہ ہے، لیکن میں اس کو جواب نہیں دیتا، اس خوف سے کہ کہیں میں اس میں اضافہ نہ کر بیٹھوں ۔[1] شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس بابت فرماتے ہے: ’’وہ اصحاب کرام جن کی عمریں لمبی ہوئیں لوگ ان کے علم کے محتاج ہوئے ، انہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت ساری احادیث روایت کیں ، جتنی خلفاء راشدیں اور کبار صحابہ سے مروی نہیں ۔ کیونکہ ان حضرات کو روایت نقل کرنیکی ضرورت ہی پیش نہیں آئی ، ان کے آس پاس بسنے والے سارے یا غالب اکثریت ان صحابہ کرام کی تھی جن کے پاس وہی علم تھا جو ان حضرات کے پاس تھا ۔ اسی لیے عبد اللہ بن عمر، عبد اللہ بن عباس ، عائشہ ،انس ، جابر، اور ابو سعید ، رضی اللہ عنہم سے اتنی احادیث مروی ہیں جتنی علی اور عمر رضی اللہ عنہما سے مروی نہیں ۔جبکہ عمر اور على رضی اللہ عنہما ان سب سے زیادہ جاننے والے تھے، لیکن ان حضرات کی زندگی لمبی ہوئی لوگ ان کے علم کے محتاج ہوئے ۔ صغار تابعین نے بھی ان کے علم سے استفادہ كیا، انہوں نے ان صحابہ سے پوچھا انہوں نے جواب دیا اور علم سکھایا ، جبکہ کبار صحابہ سے ان کی ملاقات نہیں ہو پائى ۔[2] مزید لکھتے ہیں : (سیدناابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد دوسال چھ مہینے زندہ رہے ۔ مدینہ منورہ سے حج کےلیے یا عمرہ کےلیے نکلے تو نکلے ورنہ مدینہ ہی میں قیام فرمایا ۔اور لوگوں کو ان سے حدیث لینے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی ، کیونکہ ان کے آس پاس جتنے لوگ بستے تھے ان سب نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا شرف حاصل کیاتھا۔ اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست حدیثیں سنی تھیں ۔ اس کے باوجود ان سے (142) ایک سو بیالیس حدیثیں مروی ہیں ۔ جن صحابہ کرام کی عمریں لمبی ہوئی ان سے احادیث زیادہ مروی ہیں ، اور جن صحابہ کرام کی عمریں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مختصر ہوئیں ان کی مرویات کم ہیں ۔[3]
[1] الزھد لابن المبارک ص20، الکفایہ1/504-505 [2] منہاج السنہ :8/58 [3] منہاج السنہ 7/519-520