کتاب: البیان شمارہ 21 - صفحہ 46
حیثیت دى ہے۔ ان پر علماء نے دندان شكن جواب دیئے جن میں ذہبى العصر علامہ المعلمى رحمہ اللہ نے (الأنوار الكاشفة لما فی كتاب أضواء على السنة من الزلل والتضلیل والمجازفة) اور علامہ محمد عبد الرزاق حمزة رحمہ اللہ نے (ظلمات أبی ریة أمام أضواء السنة المحمدیة) ملك شام كے عظیم عالم دین مصطفى السباعى نے (السنة ومكانتھا فی التشریع الاسلامى) تصنیف كى، اور ان كے مجازفات كا ایك ایك كر كے جواب دیا –جزاہم اللّٰہ عن الأمة الاسلامیة خیر الجزاء وأسكنھم فسیح جناتہ۔ ان پر مزید كچھ لكھنا تحصیل الحاصل ہى ہے، لیكن مجھے اس پر لكھنے كى ضرورت اس لئے محسوس ہوئى كہ عصری تعلیمى اداروں سے وابستہ كئى ایك ساتھیوں نے یہ سوال كیا، كہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے خیبر كے موقع پر سنہ 6 ہجرى میں اسلام قبول كیاجبكہ مرویات ان كى سب سے زیادہ ہیں ؟ اور ایك دفعہ مسجد نبوى كے صحن میں كوہ ہمالیہ کےدامن سے تشریف لانے والے ایك زائر سے ملاقات ہوئى پیشہ كے اعتبار سے بنكار تھے ، البتہ اسلامى تاریخ اور سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دلچسپى ركھتے تھے، آپس میں تعارف كے بعد پہلا سوال یہ داغ دیاکہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نےدیر سے اسلام قبول كیا اس كے باوجود ان سے بہت سارى احادیث كیوں مروى ہیں ؟ میں نے پوچھا بہت زیادہ كتنى ہیں ؟ كہنے لگا بہت زیادہ سننے میں آیا ہے لیكن تعداد كا نہیں پتہ، ان کی باتوں سے اندازہ ہوا كہ فتنہ پرور لوگ عصرى تعلیمی اداروں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم كى سنت مباركہ اور سیرت پر پرانے شبہات كو نئےرنگ میں پیش كر رہے ہیں جن سے نسل نو متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتى۔ اب ہم یہ دیكھتے ہیں كہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ كى روایت کردہ مکرر احادیث كو شمار كركے كل كتنى حدیثیں مروی ہیں ؟ اور مكرر كو منہا كر كے صرف متون كے اعتبار سے كتنى روایات بنتى ہیں ؟ اور آخر میں یہ دیكھنا ہے كہ ان احادیث كى تعداد كتنى ہے جو سارے صحابہ كرام میں سے صرف اور صرف