کتاب: البیان شمارہ 21 - صفحہ 45
دوسرى صدى ہجرى كے اواخر میں ابراہیم بن سیار ابو اسحاق النظام نامى معتزلى عقائد كا حامل ایك شخص نكلا جس نے جہاں اللہ تعالى كى قدرت و قوت پر سوال اٹھائے وہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم كے معجزات كا بھی سرے سے انكار كیا، ابو بكر الصدی ق عمر الفاروق عثمان ذو النورین رضی اللہ عنہم كو تنقید كا نشانہ بنایاا ورسیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ كى كثرت حدیث پر بھى انگلى اٹھائى، اس كى پیروى كرتے ہوئے بعد میں آنے والے ہر مبتدع نے جہاں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ كى روایت كردہ حدیث اس كے نظریات اور خیالات كى تائید نہ كرتى ہو وہاں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر اعتراضات کی برسات کردی۔ ان مبتدعین كے اعتراضات كو بنیاد بنا كر پچھلى صدی عیسوى میں آنے والے مشتشرقین نے اسے مزید بڑھاوا دیا، غلط بیانى، اور حقائق پر پردہ ڈال كر سنت رسول خصوصاً ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ كى ذات اور ان كى مرویات اعتراضات كیے، جن میں مشہور مشتشرق گولڈ زیہر Goldziher - 1921م) ، كارل بروكلمان (carl brockelmann 1956م) وون كریمر (von kremer - 1889 م ) سپرنگر (springer- 1893 م)شامل ہیں ۔ ان مستشرقین سے متاثر ہو كر بعض عربى ادب سے شغف ركھنے والے مسلمانوں نے نئى تحقیق كے نام پر مستشرقین كی اس مکروہ مہم كو آگے بڑھا كر ایك سیاہ تاریخ رقم كى۔ جن میں طہ حسین ،احمد امین، عبد الحسین شرف الدین العاملی، محمود أبو ریة شامل ہیں ۔ مؤخر الذكر دونوں نے طعن وتشنیع میں مستشرقین كو بھى پیچھے چھوڑا عبد الحسین شرف الدین العاملى نے (ابو ہریرہ) نامى كتاب تصنیف كى، جس میں سیدناابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی شخصى زندگى ان كى فقر وفاقہ اور ان كى مرویات پر طعن كى۔ جبكہ ،محمود ابو ریة نے’اضواء على السنة المحمدیة ‘كے نام سے كتاب لكھى، جس كا اكثر مادہ علمىہ مستشرقین كى كتابوں سے اخذ کیا جیسے’العقیدة والشریعة فی الإسلام‘گولڈ زیہر ،’تاریخ التمدن الإسلامی ‘جرجی زیدان’الحضارة الإسلامیة‘وون كریمر وغیرہ، اور عبد الحسین العاملى کی كتاب كو قبلہ كى