کتاب: البیان شمارہ 21 - صفحہ 42
لِّمَا یرِیدُ ١٠٧؁وَاَمَّا الَّذِینَ سُعِدُوْا فَفِی الْجَنَّةِ خٰلِدِینَ فِیہا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ اِلَّا مَا شَاۗءَ رَبُّكَ ۭ عَطَاۗءً غَیرَ مَجْذُوْذٍ ﴾(ھود:۱۰۵تا۱۰۸) ترجمہ:’’جس روز وہ آجائے گا تو کوئی متنفس ا للہ کے حکم کے بغیر بول بھی نہیں سکے گا۔ پھر ان میں سے کچھ بدبخت ہوں گے اور کچھ نیک بخت ،تو جو بدبخت ہوں گے وہ دوزخ میں (ڈال دیئے جائیں گے) اس میں ان کا چلانا اور دھاڑنا ہوگا ،(اور) جب تک آسمان اور زمین ہیں ، اسی میں رہیں گے مگر جتنا تمہارا پروردگار چاہے۔ بےشک تمہارا پروردگار جو چاہتا ہے کردیتا ہے ۔ اور جو نیک بخت ہوں گے وہ بہشت میں داخل کئے جائیں گے (اور) جب تک آسمان اور زمین ہیں ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔ مگر جتنا تمہارا پروردگار چاہے۔ یہ (اللہ کی) بخشش ہے جو کبھی منقطع نہیں ہوگی ۔‘‘ واضح ہوکہ ہرانسان اپنے لئے سعادت یاشقاوت کا راستہ اپنی مرضی اور اختیار سے چنتاہے،لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اللہ تعالیٰ کی مشیئت اور ارادہ سے خارج نہیں ہے،لہٰذا ہرشخص مخیَّر بھی ہےاور مسیَّر بھی،مخیَّر سے مراد یہ کہ وہ نیک یابد راستہ چننے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزادی اوراختیار دیاگیاہے،اور مسیَّر سےمراد یہ ہے کہ وہ جو راستہ چنتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے مطابق ہوتاہے،کوئی انسان ایسا راستہ اختیار کر ہی نہیں سکتا جو اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے خلاف ہو۔ جب سعادت یا شقاوت کا تعلق انسان کے خاتمہ سے ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی ہے:’إنما الأعمال بالخواتیم‘تو پھر ہر شخص کو چاہئے کہ وہ ہمیشہ خوف اور رجاء دونوں کیفیتوں کےساتھ رہے۔ شقاوت پہ مبنی خاتمہ کا مسلسل خوف اس کے دل میں موجود رہے اور اللہ تعالیٰ سے ایسے انجام کی پناہ مانگتا رہے،اسی طرح سعادت پر مبنی خاتمہ کی حرص ورغبت ،ہمیشہ اس کے دل میں موجود رہے اور اللہ تعالیٰ سے اس حسنِ خاتمہ کی دعا کرتا رہے۔