کتاب: البیان شمارہ 21 - صفحہ 40
4. کچھ وہ لوگ ہیں جن کاآغازِأمر،عملِ صالح پر قائم ہوتا ہے، لیکن آگے چل کر بگڑ جاتے ہیں یا مرتد ہوجاتے ہیں اور اسی ارتداد پر ان کی موت واقع ہوجاتی ہے،(والعیاذباللہ)ان کاتعلق اہل شقاوت سے ہے۔ آخری دونوں حالتوں کا ذکر حدیث الباب میں موجود ہے، جس کی مزید وضاحت کیلئے دومثالیں پیش خدمت ہیں : 1. ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جنگ میں شریک تھا ،بڑی دادِ شجاعت دے رہاتھا،کوئی دشمن تنہا ملتا تو اسے ٹھکانے لگا دیتا،جہاں دشمنوں کا کوئی جتھہ دیکھتا تو ان میں داخل ہوکر انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹ دیتاتھا،صحابہ کرام نے اس کی اس بہادری پر تعجب کااظہارکیا،کچھ نے یہاں تک کہہ دیا کہ ایسی شجاعت ہم نے کبھی نہیں دیکھی،مگر ناطقِ وحی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’ھو من ھل النار‘ یہ شخص تو جہنمی ہے۔ صحابہ کرام پر یہ بات بڑی گراں گزری،بھلایہ بہادر انسان کیسے جہنمی ہوسکتا ہے؟ایک شخص اس کے تعاقب میں نکل گیا،اب یہ بہادر انسان دشمن کا ایک تیر کھاکر بڑی تکلیف محسوس کرنے لگا،جب تک تکلیف برداشت سے باہر ہوگئی تو اپنی تلوار نکالی،اس کادستہ زمین سے ٹیک دیا اور اس کی نوک پر اس قدر جھول گیا کہ تلوار کمر سے باہر نکل گئی اور یوں خودکشی کربیٹھا۔(والعیاذباللہ) یہ شخص سیدھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا:’أشھد أنک رسول اللہ‘میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس وقت یہ گواہی کیوں دے رہے ہو؟اس شخص نے اس بہادر انسان کا پورا واقعہ بیان کردیا،تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’إن الرجل لیعمل بعمل أھل الجنۃ فیما یبدوللناس وھو من أھل النار[1] یعنی:’’ایک شخص بظاہر جنت والے کام کرتا ہے لیکن درحقیقت وہ جہنمی ہوتاہے ۔‘‘ 2. انصار کے قبیلے بنوعبدالا ٔ شھل میں اصیرم نامی ایک شخص دین اسلام کو مسلسل ٹھکراتارہتاتھابلکہ
[1] صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب غزوۃ خیبر ،حدیث:4207