کتاب: البیان شمارہ 21 - صفحہ 4
’’سب سن لو! اگر تم نے ان کتابوں کو جگہ جگہ پھیلانے میں کوتاہی کی تو تم اللہ کے مجرم ہو گے۔‘‘[1]
کاندھلوی صاحب نے صحیح احادیث بالخصوص صحیح بخاری اور اس کی حدیث پر جونیش زنی کی ہے، اس کی کچھ حقیقت اس ناکارہ نے ’’احادیث صحیح بخاری و مسلم کو مذہبی داستانیں بنانے کی ناکام کوشش‘‘ میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے جو بعد میں ایک نہایت مہربان دوست مولانا حافظ عبدالرشید اظہر مرحوم کے کہنے سے ’’احادیث صحیح بخاری و مسلم میں پرویزی تشکیک کا علمی محاسبہ‘‘ کے عنوان سے شایع ہوئی۔ اس سے کاندھلوی صاحب کی ناصبیت بھی کھل کر سامنے آ جاتی ہے، حیرت ہے کہ وہ اسی ناصبیت کے نتیجے میں سیدین کریمین حضرت حسنین رضی اللہ عنہما کو صحابی تسلیم نہیں کرتے۔ [2]
گویا وہ منکرِ حدیث ہی نہیں ناصبی بھی تھے اور یہی پوزیشن عباسی صاحب کی تھی جن کی مدح سرائی میں اصلاحی صاحب سردھنتے رہے ہیں ۔ اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ان کے پسندیدہ ممدوح کون ہیں اور ان کا قارورہ کن سے ملتا ہے، اس لیے یہ کہنا بے جا نہیں ہو گا ؎
کند ہم جنس با ہم جنس پرواز
کبوتر با کبوتر باز با باز
محترم حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ نے اصلاحی صاحب کا صحیح احادیث کے حوالے سے اصلی چہرہ دکھایا ہے تو تمام محبینِ احادیث ان کے شکرگزار ہیں ۔ حافظ صاحب نے دلائل سے ثابت کیا ہے کہ اصلاحی صاحب صحیح خبرِ واحد کیا، خبرِ متواتر کے بھی منکر ہیں اور ان کے کلام میں احادیث مبارکہ کا استخفاف، بلکہ استحقار بھی پایا جاتا ہے۔ انھوں نے دروسِ حدیث میں دوچار نہیں ، بلکہ صحیحین کی تیس احادیث کا انکار کیا ہے۔ اسی طرح ’’تدبر قرآن‘‘ میں جہاں جہاں صحیح احادیث کا انکار ہے اسے بھی باحوالہ ذکر کیا ہے جن کی تعداد تقریباً سینتیس ہے۔
[1] مذہبی داستانیں : ۳/۶، ۷
[2] (مذہبی داستانیں : ۱/۲۸۷، ۲۹۳)