کتاب: البیان شمارہ 21 - صفحہ 39
عمل ہے،خواہ قولی ہو ،عملی ہو یاقلبی۔ 4.چوتھی چیز جسے لکھنے کا فرشتہ کو حکم دیاجاتاہےوہ بندے کا سعید یعنی نیک بخت ہونا یا شقی یعنی بدبخت ہونا ہے،سعید وہ ہے جس کیلئے اسبابِ سعادت وسرورکی تکمیل ہوجائے،جبکہ شقی انسان کا معاملہ اس سے برعکس ہے۔ سوال یہ پیداہوتا ہے کہ تیسری چیز یعنی عمل میں سعادت یا شقاوت دونوں چیزیں آسکتی ہیں ،چنانچہ اگر اس کیلئے اعمالِ صالحہ لکھے جاتے ہیں تو یہ موجب سعادت ہے اور اگر اعمالِ سیئہ لکھے جاتے ہیں تو شقاوت کا باعث ہیں ؟ جواب یہ ہےکہ سعادت یا شقاوت کا تعلق انسان کے خاتمہ سے ہے،بعض اوقات ایک شخص زندگی بھر عملِ صالح اختیار کئے رہتا ہے لیکن عین خاتمہ کے وقت کسی معصیت کا ارتکاب کربیٹھتا ہے،اور جہنم کا مستحق قرارپاتاہے،یہی اس کی شقاوت ہے،جبکہ بعض اوقات اعمالِ سیئہ کا مرتکب انسان،موت کے وقت توبہ یا عملِ صالح کی توفیق دے دیاجاتاہے،اسی پر اس کاخاتمہ ہوجاتا ہے ،اور وہ جنت کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ گویا ہر انسان کے شقی یاسعید ہونے کا فیصلہ اس کی موت کے وقت ہوتا ہے،اس تعلق سے انسانوں کے چار احوال ہیں : 1. کچھ وہ لوگ ہیں جن کاآغاز عملِ صالح سے ہوتاہے اور عملِ صالح پر ہی انجام ہوجاتاہے،ان لوگوں کا تعلق اہل سعادت سے ہے۔ 2. کچھ وہ لوگ ہیں جن کا آغاز اور انجام دونوں برے عمل پر ہوتا ہے،یہ انسان سراسر شقی ہیں ۔ 3. کچھ وہ لوگ ہیں جن کاآغاز برے اعمال سے ہوتا ہے،لیکن آگے چل کر توبہ کی توفیق دے دیئے جاتے ہیں ،چنانچہ وہ عملِ صالح اختیار کرلیتے ہیں اور اسی پر ان کا انجام قائم ہوجاتا ہے،ان کا تعلق بھی اہل سعادت سے ہے۔