کتاب: البیان شمارہ 21 - صفحہ 38
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی مذکور ہے:’ فَإِنَّ نَفْسًا لَنْ تَمُوتَ حَتَّى تَسْتَوْفِی رِزْقَھَا[1] یعنی:کوئی ’’نفس اس وقت تک مر ہی نہیں سکتا جب تک اپنا لکھا ہوا پورا رزق حاصل نہ کرلے۔‘‘ 2.فرشتہ کو اس انسان کے أجل یعنی دنیا میں مدتِ بقاء لکھنے کا حکم دیاجاتاہے،مدتِ بقاء یا عمر کے تعلق سے انسانوں میں یکسانیت یا برابری نہیں رکھی گئی،بلکہ اس تعلق سے انسانوں میں بڑا تفاوت وتباین ہے،کچھ لوگ تو ولادت کے وقت ہی مر جاتے ہیں اور کچھ کو مختصر اور کچھ کو طویل زندگی دی جاتی ہے۔ سابقہ امتوں کی عمریں بہت لمبی ہوا کرتی تھیں ،جیساکہ نوح علیہ السلام کا اپنی قوم میں 950سال رہنے کا ذکر خود قرآن میں موجود ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کے مطابق اس امت کی عمریں 60اور 70سال کے مابین ہیں ،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ 70کے عدد کو کم لوگ عبور کرسکیں گے۔[2] واضح ہو کہ عمروں کا چھوٹا ،بڑاہونا کسی انسان کے اختیار میں نہیں ہے،بلکہ اللہ تعالیٰ کے امراور مشیئت سے ہے،نہ ہی عمروں کافیصلہ کسی انسان کی ظاہری صحت یا مرض سے کیا جاسکتا ہے،کتنے ہی مریض سالہاسال بستر مرگ پر ایڑھیاں رگڑتے رہ جاتے ہیں اور کتنے ہی صحتمند لوگ اچانک کسی حادثہ کی نذر ہوجاتے ہیں ،لہٰذا تمام آجال کی تقدیر صرف اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہے،جب اللہ تعالیٰ کا امر آجائے گا تو ایک لحظہ کی تاخیرکے بغیر موت واقع ہوجائے گی،جبکہ اللہ تعالیٰ کے امر سے ایک لحظہ کی تقدیم بھی ممکن نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کافرمان :﴿وَلِكُلِّ اُمَّۃٍ اَجَلٌ ۝۰ۚ فَاِذَا جَاۗءَ اَجَلُہُمْ لَا یسْـتَاْخِرُوْنَ سَاعَۃً وَّلَا یسْتَقْدِمُوْنَ﴾ ترجمہ:’’اور ہر ایک گروہ کے لیے (موت کا) ایک وقت مقرر ہے۔ جب وہ آ جاتا ہے تو نہ تو ایک گھڑی دیر کرسکتے ہیں نہ جلدی ۔‘‘(الاعراف:۳۴) 3.فرشتہ کو اس انسان کاعمل،جو وہ زندگی بھر کرتارہے گا،لکھنے کا حکم دیاجاتاہے،عمل سے مراد ہرقسم کا
[1] سنن ابن ماجہ،کتاب التجارات ،باب الاقتصاد في طلب المعیشۃ،حدیث:2144 [2] جامع الترمذی،233،کتاب الزھد عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،باب ماجاء في فناء اعمارھذہ الامۃ مابین ستین الی سبعین