کتاب: البیان شمارہ 21 - صفحہ 36
صرف یہ بتادو:﴿وَیسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ ۝۰ۭ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّی وَمَآ اُوْتِیتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیلًا﴾ ترجمہ:’’اور تم سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں ۔ کہہ دو کہ وہ میرے پروردگار کی ایک شان ہے اور تم لوگوں کو (بہت ہی) کم علم دیا گیا ہے ۔‘‘(الاسراء:۸۵) ثابت ہوا کہ روح اللہ تعالیٰ کے امر یعنی شان سے ہے اور اللہ تعالیٰ ہی اس کاخالق ہے،فرمانِ باری تعالیٰ: ﴿وَمَآ اُوْتِیتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیلًا ﴾سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ انسانوں کو روح کے بارے میں بہت کم علم دیاگیا ہے،بلکہ اس فرمان میں کسی حد تک ڈانٹ ڈپٹ کا پہلو بھی ہےکہ تمہارے استفسار کیلئے صرف روح ہی باقی رہ گئی ہے؟باقی تمام مسا ئل تم جان چکے ہو؟ روح کے تعلق سے اللہ تعالیٰ کےعلم اور انسان کے علم میں فرق موسیٰ اور خضر علیہما السلام کے قصہ سے بخوبی واضح ہوتاہے ،جب ان دونوں ہستیوں کے سامنے ایک پرندہ نے اپنی چونچ سے سمندر کا پانی پیا تو خضر علیہ السلام نے فرمایاتھا: ’مانقص علمی وعلمک من علم اللہ إلاکما نقص ھذا العصفور بمنقارہ من البحر[1] یعنی:’’میرے اور تمہارے (اور تمام مخلوقات)کے علم نے اللہ تعالیٰ کے علم سے اتنا ہی حصہ کم کیاہے جتنا اس پرندے کی چونچ میں موجود پانی نے سمندر سے۔‘‘گویا کوئی کمی پیدا نہیں کی ۔ قرآن وحدیث سے تمام مخلوقات کی ارواح کے پہلے سے پیدا کئے جانے کا علم ملتاہے،چنانچہ تمام روحیں عالم ارواح میں موجود ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فرمان :’الأرواح جنود مجندۃ ... الحدیث[2]میں یہ حقیقت واضح فرمادی کہ انسانوں کی روحیں ،پیدا ہوکر عالم ارواح میں رکھی جاچکی ہیں جوکہ بیرکوں میں موجود فوجیوں کی مانند ہیں ،جس طرح بیرکوں سے فوجی کسی مہم کی ادائیگی کیلئے روانہ ہوتے ہیں اور دوسرے فوجی کوئی مہم اداکرکے واپس لوٹتے ہیں ،اسی طرح فوت شدہ لوگوں کی روحیں واپس
[1] صحیح البخاری ،کتاب الاحادیث الأنبیاء،باب حدیث الخضر مع موسیٰ علیہ السلام،حدیث:3400 [2] صحیح البخاری ،کتاب الاحادیث الأنبیاء،باب الارواح جنود مجنّدۃ ،حدیث:3336