کتاب: البیان شمارہ 21 - صفحہ 35
کے بھیجنے سے آتاہے۔ فرشتہ کا پہلا کام نفخِ روح ہے،یعنی وہ اس گوشت کے لوتھڑے میں روح پھونکتاہے،جس سے اس مردہ لوتھڑے میں جان پڑ جاتی ہے، اور وہ زندہ ہوجاتاہے۔ قرآن حکیم میں ہر انسان کی دوزندگیوں اور دوموتوں کا ذکر ملتا ہے،جیسا کہ ایک مقام پر کفار کا قول مذکور ہے:﴿قَالُوْا رَبَّنَآ اَمَتَّنَا اثْنَتَینِ وَاَحْییتَنَا اثْنَتَینِ ﴾(غافر:۱۱) ترجمہ:’’وہ کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار تو نے ہم کو دو دفعہ بےجان کیا اور دو دفعہ جان بخشی۔ ‘‘ پہلی موت سے مراد نفخِ روح سے قبل کا مرحلہ ہے ،جبکہ پہلی زندگی نفخِ روح کے بعد شروع ہوتی ہے اور دنیوی زندگی کے خاتمہ تک قائم رہتی ہے۔دوسری موت دنیوی زندگی کے خاتمے سے لیکر قیامت کے قائم ہونے تک ہے،لیکن یہ موت برزخی حیات کے منافی نہیں ہے؛ کیونکہ برزخی حیات کتاب وسنت سے ثابت ہے۔ دوسری زندگی قیامت کے قائم ہونے سے شروع ہوگی اور یہ دائمی زندگی ہوگی جس کی کوئی انتہاء نہ ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿كَیفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللہِ وَكُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیاكُمْ ۝۰ۚ ثُمَّ یمِیتُكُمْ ثُمَّ یحْییكُمْ ثُمَّ اِلَیہِ تُرْجَعُوْنَ﴾(البقرہ:۲۸) ترجمہ:’’(کافرو!) تم اللہ سے کیوں کر منکر ہو سکتے ہو جس حال میں کہ تم بےجان تھے تو اس نے تم کو جان بخشی پھر وہی تم کو مارتا ہے پھر وہی تم کو زندہ کرے گا پھر تم اسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے ۔‘‘ روح پھونکنے کی کیفیت،اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا،چنانچہ اس کیفیت کے تعلق سے کسی بھی قسم کی بحث محض عبث ہوگی،ہمیں صرف اتنا علم دیاگیا ہے کہ فرشتہ گوشت کے لوتھڑے میں پھونک مارتاہےجسے وہ جسم قبول کرلیتا ہے اور زندہ ہوجاتاہے۔ اس طرح انسان موت یاعدم سے زندگی یاوجود کی طرف منتقل ہوجاتاہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روح کی بابت سوال کیاگیا تو اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ ان سوال کرنے والوں کو