کتاب: البیان شمارہ 21 - صفحہ 34
نہایت خراب عمر کی طرف لوٹائے جاتے ہیں کہ بہت کچھ جاننے کے بعد بالکل بےعلم ہوجاتے ہیں ۔‘‘ نیز سورۃ المؤمنون میں فرمایا: ﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰـلَـةٍ مِّنْ طِینٍ ؀ۚثُمَّ جَعَلْنٰہ نُطْفَةً فِی قَرَارٍ مَّكِینٍ ۝۠ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَـلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَـلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْــمًا ۤ ثُمَّ اَنْشَاْنٰہ خَلْقًا اٰخَرَ ۭفَتَبٰرَكَ اللّٰہ اَحْسَنُ الْخٰلِقِینَ ۭ ﴾(المؤمنون:۱۲تا۱۴) ترجمہ:’’اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے پیدا کیا ہے ،پھر اس کو ایک مضبوط (اور محفوظ) جگہ میں نطفہ بنا کر رکھا،پھر نطفے کا لوتھڑا بنایا۔ پھر لوتھڑے کی بوٹی بنائی پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں پھر ہڈیوں پر گوشت (پوست) چڑھایا۔ پھر اس کو نئی صورت میں بنا دیا۔ تو اللہجو سب سے بہتر بنانے والا بڑا بابرکت ہے ۔‘‘ واضح ہو کہ تخلیقِ انسان کے حوالے سے ان تینوں ادوار واطوار کی خبر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی،جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی صداقت کی زبردست دلیل ہے۔کما تقدم اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ جوکہ پوری کائنات کا خالق ومالک ہے کی قدرت اورحسنِ صنعت کی بھی واضح برہان ہے ،وہ اکیلا ہی خالق وباریٔ ہے، جس کاتقاضا یہ ہے کہ اس علم ومعرفت کے بعد،اسی کی عبادت بجالائی جائے اور اس عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرایاجائے ؛کیونکہ خلق میں کوئی شریک اور سھیم نہیں ہے،بلکہ تخلیق کے مذکورہ مراحل میں سے کسی مرحلے کے کسی حصہ میں بھی کسی کی شراکت شامل نہیں ہے: ﴿یٰٓاَیہَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِىْ خَلَقَكُمْ وَالَّذِینَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۝۲۱ۙ﴾(البقرۃ:۲۱) ترجمہ:’’لوگو! اپنے پروردگار کی عبات کرو جس نے تم کو اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم (اس کے عذاب سے) بچو ۔‘‘ تخلیقِ انسانی کا اگلا مرحلہ،فرشتہ کی بعثت اوراس کے ذریعہ نفخِ روح کاہے ۔اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ،اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجاجاتاہے،فرشتہ اپنی مرضی سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ