کتاب: البیان شمارہ 21 - صفحہ 33
سے مراد وہ نطفہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ کسی انسان کے پیداہونے کا فیصلہ فرمائے،ہرنطفہ خلقِ انسان کی بنیاد نہیں بن سکتا،صحیح مسلم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان منقول ہے:’ ما من كل الماء یكون الولد وإذا أراد اللہ خلق شئی لم یمنعہ شئی[1]یعنی:’’ ہر منی سے بچہ نہیں بنتا۔اور جب اللہ تعالیٰ کسی چیز کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمالیتاہےتو اسے کوئی چیزنہیں روک سکتی۔‘‘بلکہ یہ سارامعاملہ اورنظام اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف ہے۔ تخلیق انسان کادوسرامرحلہ علقہ ہے،علقہ سے مراد گاڑھا جماہوا خون ،جبکہ تیسرا مرحلہ مضغہ ہے،مضغہ سے مراد گوشت کی بوٹی جو چبائے جانے کے قابل ہو۔ تخلیقِ انسانی کے ان تین مراحل میں سے ہرمرحلہ کی مدت چالیس دن ہے،گویا ان تینوں مراحل کی مجموعی مدت چار مہینے یا 120دن بنتی ہے۔ قرآن پاک میں جابجا ان مراحل کا ذکرواردہواہے: ﴿یٰٓاَیہَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِی رَیبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَاِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَۃٍ ثُمَّ مِنْ مُّضْغَۃٍ مُّخَلَّقَۃٍ وَّغَیرِ مُخَلَّقَۃٍ لِّ نبی نَ لَكُمْ ۝۰ۭ وَنُقِرُّ فِی الْاَرْحَامِ مَا نَشَاۗءُ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوْٓا اَشُدَّكُمْ ۝۰ۚ وَمِنْكُمْ مَّنْ یتَوَفّٰى وَمِنْكُمْ مَّنْ یرَدُّ اِلٰٓى اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَیلَا یعْلَمَ مِنْۢ بَعْدِ عِلْمٍ شَـیــــًٔا﴾ (الحج:۵) ترجمہ:’’لوگو اگر تم کو مرنے کے بعد جی اُٹھنے میں کچھ شک ہو تو ہم نے تم کو (پہلی بار بھی تو) پیدا کیا تھا (یعنی ابتدا میں ) مٹی سے پھر اس سے نطفہ بنا کر۔ پھر اس سے خون کا لوتھڑا بنا کر۔ پھر اس سے بوٹی بنا کر جس کی بناوٹ کامل بھی ہوتی ہے اور ناقص بھی تاکہ تم پر (اپنی خالقیت) ظاہر کردیں ۔ اور ہم جس کو چاہتے ہیں ایک میعاد مقرر تک پیٹ میں ٹھہرائے رکھتے ہیں پھر تم کو بچہ بنا کر نکالتے ہیں ۔ پھر تم جوانی کو پہنچتے ہو۔ اور بعض (قبل از پیری مرجاتے ہیں اور بعض شیخ فانی ہوجاتے اور بڑھاپے کی)
[1] صحیح مسلم،کتاب النکاح،باب حکم العزل،حدیث:3554