کتاب: البیان شمارہ 21 - صفحہ 32
کرتاہے اور اپنے آپ کو مسلمان قرار دیتا ہے اسے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے آمدہ ہر خبر اور فرمان کو سچا جاننا ہوگا۔ ﴿ قَالَ اللّٰہُ ہٰذَا یوْمُ ینْفَعُ الصّٰدِقِینَ صِدْقُہُمْ۝۰ۭ لَہُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِی مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِینَ فِیہَآ اَبَدًا۝۰ۭ رَضِی اللہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ ۝۰ۭ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ﴾(المائدۃ:۱۱۹) ترجمہ:’’اللہ فرمائے گا کہ آج وہ دن ہے کہ سچوں کو ان کی سچائی ہی فائدہ دے گی ان کے لئے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ابدالآباد ان میں بستے رہیں گےاللہ ان سے خوش ہے اور وہ اللہ سے خوش ہیں یہ بڑی کامیابی ہے ۔‘‘ اس حدیث میں انسانی خلقت کے تین اطوار کاذکر ہے: (1) نطفہ (2) علقہ(3)مضغہ نطفہ کے جمع کئے جانے سےمراد یہ ہے کہ آدمی اور عورت کا نطفہ جو متفرق تھا،اسے رحمِ مادر میں جمع کیاجاتاہے،جس سے انسان کی تخلیق کا آغاز ہوجاتاہے،اللہ تعالیٰ کافرمان ہے: ﴿ فَلْینْظُرِ الْاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ ۝۵ۭ خُلِقَ مِنْ مَّاۗءٍ دَافِقٍ ۝۶ۙ یخْرُجُ مِنْۢ بَینِ الصُّلْبِ وَالتَّرَاۗىِٕبِ﴾ ترجمہ:’’تو انسان کو دیکھنا چاہئے کہ وہ کاہے سے پیدا ہوا ہے ،وہ اچھلتے ہوئے پانی سے پیدا ہوا ہے،جو(مردکی) پیٹھ اور(عورت کے) سینے کے بیچ میں سے نکلتا ہے ۔‘‘(الطارق:۵تا۷) دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿ اَلَمْ نَخْلُقْكُّمْ مِّنْ مَّاۗءٍ مَّہین ٍ ؀ۙفَجَــعَلْنٰہ فِی قَرَارٍ مَّكِینٍ ؀ۙاِلٰى قَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ ؀ۙفَقَدَرْنَا ڰ فَنِعْمَ الْقٰدِرُوْنَ﴾ ترجمہ:’’کیا ہم نے تم کو حقیر پانی سے نہیں پیدا کیا؟ اس کو ایک محفوظ جگہ میں رکھا ،ایک وقت معین تک،پھر اندازہ مقرر کیا اور ہم کیا ہی خوب اندازہ مقرر کرنے والے ہیں ۔‘‘(المرسلات:۲۰تا۲۳) واضح ہوکہ اس حدیث میں جو نطفہ کے جمع ہونے کو خلقِ انسان کا پہلامرحلہ قراردیاگیاہے تو اس نطفہ