کتاب: البیان شمارہ 21 - صفحہ 31
سوال یہ ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس حدیث کی روایت سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ’الصادق المصدوق‘کیوں کہا؟اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث چند امورِ غیبیہ پر مشتمل ہے، ان امورکاتعلق انسانی تخلیق کے مختلف مراحل سے ہے جن کا کوئی مشاہدہ نہیں کرسکتا،ان امورکی معرفت طریقِ وحی سے ہی ممکن ہے،خاص طورپہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس دور میں مبعوث ہوئے اس میں ،آج کے دور کے برعکس طبی یاسائنسی ترقی معدوم تھی،اس دور میں انسانی تخلیق کے ان ادوار ومراحل کی خبر دینا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے صدق وحقانیت کازبردست ثبوت تھا،اس بات کی دلیل تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناطقِ وحی ہیں ،کیونکہ ان امور کی معرفت، مقدورِ بشریت سے انتہائی بعید ہے ،لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ خبریں بیان فرمانااس بات کی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اساس اللہ تعالیٰ کی وحی ہے۔ بلکہ اس حدیث میں چند ایسے امورِ غیبیہ کا ذکربھی ہے جن تک آج کے دور کی طب اور سائنس کی بھی رسائی نہیں ہے،اور وہ فرشتوں کا ہرپیداہونے والے شخص کیلئے چارچیزوں کالکھنا:اس کارزق،اس کی عمر،اس کاعمل اوراس کا شقی (بدبخت) یاسعید(نیک بخت)ہونا۔ سائنس اگرچہ ایسے آلات ایجاد کرنے میں کامیاب ہوچکی ہے، جن کی مدد سے شکمِ مادر میں پلنے والے بچےکے احوال وتغیرات منکشف ہوسکتے ہیں ،لیکن یہ سائنس جتنی بھی ترقی کرجائے مذکورہ بالاچار چیزوں کی دھول بھی نہیں پاسکتی۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا اس حدیث کے آغاز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ’صادق مصدوق‘کہنا،ان کی ذہانت وفقاہت کی زبردست دلیل ہے،اور مضمونِ حدیث کے عین مطابق ہے۔ وھو الصادق المصدوق‘یہ جملہ،ماقبل جملے(رسول اللہ )کی تاکید ہےکیونکہ جوشخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول اللہ مانتا ہے،اسے الصادق المصدوق بھی ماننا پڑے گا،ورنہ اس کا ایمان بالرسول ناقابل قبول ہے،اسی لئے کلمہ ’ لاالٰہ الااللہ‘ کی صحت وقبولیت کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ اس کلمے کا نطق اور اقرار واعتراف ایسے صدق کے ساتھ ہو جس میں کذب کی کوئی گنجائش نہ ہو،لہٰذا جوشخص اس کلمہ کا اقرار