کتاب: البیان شمارہ 21 - صفحہ 30
میں چالیس دن جمع کی جاتی ہے،پھر وہ اتنی ہی مدت جما ہواخون بن جاتاہے، پھر اتنا ہی عرصہ کیلئے گوشت کی بوٹی بن جاتاہے،پھر اس کی طرف فرشتہ کو بھیجا جاتاہےجو اس کے اندر روح پھونک دیتاہے،فرشتہ کو چار کلمات کاحکم دیاجاتاہے،چنانچہ و ہ اس کارزق،اس کی عمر،اس کاعمل اوراس کا شقی (بدبخت) یاسعید(نیک بخت)ہونا لکھ دیتاہے، اللہ کی قسم!جس کے سوا کوئی معبودِ حق نہیں ہے،تم میں سے کوئی شخص جنت والے کام کرتا رہتا ہے،حتی کہ اس کے اور جنت کے مابین ایک ہاتھ کافاصلہ رہ جاتا ہے، پھر اس کی تقدیر اس پرغالب آتی ہے اور وہ جہنم والاکوئی عمل انجام دے کر جہنم کالقمہ بن جاتاہے،اور تم میں سے کوئی شخص جہنم والے عمل کرتاہے،حتی کہ اس کے اور جہنم کے درمیان ایک ہاتھ کافاصلہ رہ جاتاہے ،پھر اس کی تقدیر اس پر غالب آتی ہے اور وہ جنت والاعمل کرکے،جنت میں داخل ہوجاتاہے۔‘‘ شرحِ حدیث اس حدیث کے راوی،فقیہ الامت،ابوعبدالرحمن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں ،انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث روایت کرتے ہوئے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ’الصادق المصدوق‘ کہا ہے،صادق اس شخص کو کہا جاتاہے جو سچی خبر دےاور سچی بات کہے،جبکہ مصدوق وہ شخص کہلاتا ہے جسے صرف سچی خبریں یا باتیں بتلائی جائیں ،اور وہ ان سچی خبروں یا باتوں کو بصدقِ تمام آگے پہنچادے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بذاتِ خود صادق تھے،آپ کے اس وصف کی پوری قوم،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول بننے سے پہلے بھی معترف تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مصدوق ہونے کا معنی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مخبَر بالصدق ہیں ،یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچی باتیں بتائی جاتی ہیں ،اس سے مراد وحیٔ الٰہی ہے،اس لحاظ سے آپ مصدوق ہیں ،اور چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بتمام صدق وامانت سے اس وحی کو آگے پہنچانے والے ہیں لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم صادق بھی ہیں ۔