کتاب: البیان شمارہ 21 - صفحہ 3
میں ان کی ہرزہ سرائی کو اُجاگر کر کے ان کے افکار و نظریات سے امت مسلمہ کو خبردار کیا اور حدیث کے بارے میں ان کا اصلی چہرہ دکھایا۔
جزاہ اللّٰہ أحسن الجزاء و صانہ اللّٰہ من کل شر وحسد حاسد، و وفقہ اللّٰہ لما یحب و یرضی۔
ایک عرصہ ہوا جب اصلاحی صاحب کے دروس ماہ نامہ ’’تدبر‘‘ میں شایع ہو رہے تھے اور صحیح بخاری اور موطأ امام مالک ان کا تختہ مشق بنی ہوئی تھیں ۔ یہ ناکارہ انھیں پڑھتا تو بے ساختہ ’’انا للہ و انا الیہ راجعون‘‘ زبان سے نکل جاتا کہ کیا یہ وہی بزرگ ہیں جنھوں نے ’’تزکیۂ نفس‘‘، ’’حقیقتِ توحید‘‘، ’’حقیقتِ تقویٰ‘‘، ’’حقیقتِ شرک‘‘ اور ’’پاکستانی عورت دو راہے پر‘‘ جیسی تحریریں لکھی ہیں ۔ اور اب یہ صحیح احادیث کی شرح کر رہے ہیں یا ان کی مرمت و مذمت کر رہے ہیں !
بلی تھیلے سے باہر:
اصلاحی صاحب نے اصلاحی جذبے سے جب لکھا تو اس میں خیر کا بہت سا سامان تھا لیکن جب اپنے موضوع سے ہٹ کر بات کی تو جا بہ جا ٹھوکر کھائی۔ آخری دور میں تو وہ بالکل منکرین حدیث کا روپ دھارے ہوئے تھے اور ان کی مدح سرائی میں مبتلا تھے۔ معروف منکرِ حدیث قاری حبیب الرحمان صدیقی کاندھلوی کی بدنامِ زمانہ کتاب ’’مذہبی داستانیں ‘‘ شایع ہوئی تو اس کی دوسری جلد کے مقدمے کو پڑھ کر اصلاحی صاحب نے اپنے قریبی ساتھیوں کو، جن میں علامہ جاوید غامدی صاحب بھی تھے، بلایا اور فرمایا:
’’میں نے زندگی میں صرف دو آدمی اس لفظ ’’علامہ‘‘ کے مستحق دیکھے ہیں ؛ ایک علامہ عباسی مرحوم اور دوسرے علامہ حبیب الرحمان صاحب۔‘‘
یہی نہیں بلکہ کاندھلوی صاحب کی کتابوں کو گھر گھر پہنچانے کی بڑی زور دار تاکید کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا: