کتاب: البیان شمارہ 21 - صفحہ 16
بندوں پر رحم فرمائے گا۔‘‘[1] ٭ نیز رحمٰن و رحیم کے مابین فرق میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ایک عظیم قول بھی ہے وہ فرماتے ہیں کہ: رحمن سے مرادیہ ہے کہ جو کچھ اس سے مانگا جائے وہ دیدے اور رحیم سے مراد یہ ہے کہ اگر اُس سے مانگا نہ جائے تو وہ ناراض ہوجائے۔ بِسْمِ اللّٰہِ سے متعلّقہ چند اہم مسائل کا اجمالی جائزہ : ’ بسم اللہ الرحمٰن الرّحیم ‘‘ قرآن کریم کی’’ سورۃ نمل‘‘ میں آیتِ سجدہ کے بعد والی’’ آیت کا مستقل جزو ‘‘ ہے۔ جہاں تک ’’ بسم اللہ الرحمٰن الرّحیم ‘‘کا ہر سورت کی ابتداء میں لکھے اور پڑھے جانے کا تعلّق ہے تو اس میں صحیح بات یہ ہے کہ یہ سورۃ فاتحہ کے علاوہ کسی بھی سورت کی پہلی آیت نہیں ، بلکہ محض دو سورتوں کے درمیان فاصلہ کے لیے لکھی اور پڑھی جاتی ہے سوائے سورۃ التوبہ (سورہ برأت) کے کہ اُس کے شروع میں ’’بسم اللہ ‘‘ نہ لکھی جائےگی اور نہ پڑھی جائے گی۔  بسم اللہ پڑھنے کے اوقات و مقامات: 1. قرآن مجید کی تلاوت اور کچھ بھی اچھا پڑھنے سے پہلے: ارشاد ربانی ہے کہ: ﴿ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِی خَلَقَ ﴾ (العلق :1) ’’پڑھ اپنے رب کےنام سے جس نے (تمام مخلوق کو) پیداکیا ۔‘‘ 2. کچھ بھی اچھا و جائزلکھنے سے پہلےجیسےخطوط ، رسائل، ایمیل، درخواست وغیرہ : ہمارے پیارے نبی کریم جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طریقہ تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوبادشاہوں کی طرف خطوط لکھےان کی ابتدا بھی ’’ بسم اللہ الرحمٰن الرّحیم ‘‘سے فرمائی تھی ، اور اسی طرح سلف صالحین کا بھی یہی
[1] صحیح مسلم ،کتاب التوبہ،بَاب فِي سِعَةِ رَحْمَةِ اللّٰهِ تَعَالَى،حدیث:2752