کتاب: البیان شمارہ 21 - صفحہ 15
رکھاہے۔ میں رحم (رشتہ داری)جوڑنے والوں پر رحم کروں گا اور توڑنے والوں پر رحم نہیں کرونگا۔‘‘ [1]
٭ اوریہ دونوں مبالغہ کے صیغے ہیں (مبالغہ یعنی جس میں حدسےزیادہ کا معنی پایا جائے) ۔
’’رحمٰن ‘‘ اور ’’ رحیم ‘‘ میں فرق:
٭ رحم (رحمت و مہربانی)کی صفت ’’رحمٰن ‘‘ میں ’’ رحیم ‘‘ سے زیادہ ہے۔ ’’رحمٰن ‘‘ میں ’’ رحیم ‘‘ کی نسبت اتنا زیادہ مبالغہ ہےکہ یہ اللہ تعالیٰ کے دوسرے ذاتی نام کا درجہ رکھتا ہے۔
٭ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں ’ ’رحمٰن ‘‘ وہ مبارک اور اعلیٰ صفت ہے کہ جس کااستعمال غیر اللہ یعنی مخلوق کے لیے حرام اور ناجائز ہے۔جبکہ ’’ رحیم ‘‘ کا استعمال مخلوق کے لیے بھی کیا جاسکتا ہے۔
نیز ان دونوں کے درمیان اس طرح بھی فرق کیاگیا ہے کہ :
٭ ’’ رحمٰن ‘‘ سے مراد ہےکہ مسلم و کافر دونوں پر رحم کرنے والا جبکہ’’ رحیم ‘‘سے مراد کہ جس کی رحمت اُس کے مؤمن بندوں کے ساتھ خاص ہو۔
٭ ’’ رحمٰن ‘‘ سے دنیا اور آخرت دونوں میں رحم فرمانے والا او ر ’’ رحیم‘‘ سے صرف آخرت میں رحم فرمانے والا مراد ہے۔اور دنیا کے مقابلہ میں آخرت کی رحمت کیا ہوگی اس کا اندازہ درجِ ذیل حدیث کیا جاسکتا ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہےکہ :’’اللہ کی رحمت کے سو(100) حصّے ہیں ، جن میں سے صرف ایک حصّہ اُس نے دنیا میں تمام مخلوقات انس و جن ،چرند پرند ،کیڑے مکوڑےوغیرہ کے لیےاتارا ہےجس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کے ساتھ نرمی و محبت کا معاملہ کرتے ہیں اور اسی (ایک رحمت کے حصے )کی وجہ سےدرندے اپنی اولاد سے محبت و رحمت کا معاملہ کرتے ہیں ۔جبکہ رحمت کے بقیہ ننانویں حصّے اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے ہی مختص کر رکھے ہیں کہ جن کے ساتھ وہ روزِ آخرت اپنے
[1] سنن أبي داؤد،کتاب الزکاۃ،بَاب فِي صِلَةِ الرَّحِمِ،حدیث:1694