کتاب: البیان شمارہ 21 - صفحہ 144
ہماری اور ہمارے بڑوں کی عزت کریں گے۔ اگر ہم بڑوں کی عزت نہیں کریں گے تو بچے کو کتنا ہی سمجھا لیں وہ ہرگز کسی بڑے کی عزت نہیں کرے گا۔لہٰذا ہم کسی کو جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں ہر ایک کا احترام ہم پر ضروری ہے اور یہی اسلامی آداب میں سے ہے۔ حدیث میں ہے: لیس منا من لم یرحم صغیرنا ولم یوقر کبیرنا[1] ترجمہ:’’ وہ ہم میں سے نہیں جس نے چھوٹوں پر شفقت اور بڑوں کی عزت (احترام) نہ کی۔ ‘‘ 34. ہر چھوٹے پر شفقت کرنا معمولی نہ سمجھئے: صرف اپنے بچوں پر ہی نہیں بلکہ دوسرے بچوں پر بھی شفقت کرنی چاہئے اور بعض اوقات دوسروں کے بچوں کا زیادہ خیال رکھنا چاہئے ۔ مثلا: اگر میں اپنے رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے بچوں کا خیال رکھوں گا تو میرا بچہ بھی ان کا خیال کرے گا اور ان سے محبت کرے گا، اسی طرح میں اپنے بچے کے ساتھ جتنی زیادہ شفقت سے پیش آؤں گا وہ اتنا ہی زیادہ میرے قریب ہوگا۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ بچے کو آزاد چھوڑ دیا جائے بلکہ جہاں اصولی بات ہو وہاں شفقت کا تقاضہ ہی یہی ہے کہ بچے کو سمجھایا جائے۔ علما کرام فرماتے ہیں کہ بچے کو غلط کام پر ٹوکنا اور کبھی کبھی اس پر ناراض ہونا اور غصہ کا اظہار کرنا بھی رحم دلی اور شفقت کی علامت ہے کیونکہ اگر ایسا نہ کیا جائے تو بچہ کے بگڑنے کے بہت امکانات ہوتے ہیں ۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے بچوں کی صحیح طریقے سے تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان غلطیوں سے محفوظ فرمائے جن کی وجہ سے بچوں کی صحیح تربیت میں خلل واقع ہوتا ہے۔
[1] سنن ترمذی:1919